حدیث پاک کو ضعیف کہہ کر حدیث کا انکار کرنا ایک فتنہ ہے اس فتنہ کو پہچانیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ضعیف حدیث کا مطلقاً انکار آج کے دور کا ایک بڑا فتنہ ہے۔اور منکرین حدیث کا نیا روپ بھی۔ دور اول میں اس فتنے کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن آج اس فتنے کو ہوا دینے والے جگہ جگہ موجود ہیں۔ خصوصا ناصر الدین البانی صاحب نے اس فتنہ کو ہوا دے کر شعلہ بنایا اور اس کی فکر سے متاثر ہوکر آج عام کردیا گیا ہے۔ ان متاثرین میں ماہنامہ’’الحدیث‘‘ کے مدیر زبیر علی زئی صاحب نے اس فتنہ کو اور ہوا دی۔ ’’الحدیث‘‘ کے آخری صفحہ پر مستقل یہ بات لکھی ہوتی ہے کہ ہماراعزم ’’ضعیف و مردود روایات سے کلی اجتناب‘‘ اور زبیر صاحب نے ناصر الدین البانی کی تقلید میں سنن اربعہ میں سے ضعیف روایات کو اکھٹا کرکے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ جس کا نام ہے ’’انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعۃ‘‘
پھر اس کی تقلید میں ماہنامہ ’’ضرب حق‘‘ کے مدیر سبطین شاہ آف سرگودھا نے بھی یہی عزم ظاہر کیا۔ چنانچہ ماہنامہ ضرب حق کے آخری صفحہ پر مستقل لکھا ہوتا ہے۔ ’’ضعیف احادیث سے قطعی اجتناب‘‘ ان کی دیکھا دیکھی دیگر کئی لوگوں نے البانی سے متاثر ہوکر ضعیف احادیث کا مطلقاً انکار شروع کردیا۔ اور یوں یہ منکرین حدیث کا نیا روپ ہمارے سامنے آیا۔ اور ان کا طریقہ واردات بالکل پرانے منکرین حدیث جیسا ہے۔ کیونکہ وہ مطلقا حدیث کا انکارکرتے تھے اورجب اپنی بات کا ثبوت دینا ہوتا تو اپنے مطلب کی روایات کو دلیل بناکر پیش کردیتے۔ بالکل اسی طرح یہ گروہ بھی ضعیف احادیث کا کلی انکار بھی کرتا ہے۔اور اپنی بات کا ثبوت دینے کے لئے طرح طرح کے بہانے بناکر ضعیف احادیث بھی پیش کرتاہے۔ حالانکہ یہ گروہ شروع ہی سے مختلف نام تبدیل کرتا رہا۔ کبھی یہ سلفی بنا تو کبھی توحیدی۔ کبھی وہابی تو کبھی نام تبدیل کروا کر اہل حدیث، اور کبھی محمدی۔ الغرض گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا یہ گروہ آج ایک نئے روپ میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہورہا ہے اور وہ ہے’’ضعیف احادیث سے کلی انکار کاروپ‘‘ لوگوں کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ضعیف روایات اور مردود وموضوع روایات میں کوئی فرق نہیں۔حالانکہ اہل سنت و جماعت کے سلف صالحین، محدثین و محققین کا یہ طریقہ کارنہیں رہا۔ ضعیف احادیث کا کلی انکار کرنا، انکار احادیث کا دروازہ کھولنا ہے اور منکرین احادیث کی کھلم کھلا حمایت کرنی ہے۔ محدثین کرام رحمہم اﷲ کا امت محمدیہ پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے اﷲ کے رسولﷺ کے ہر قول وفعل اور آپﷺ کی ہر ہر سنت کوپہلے اپنے سینوں میں محفوظ کیا پھر اس کو سفینہ میں درج کرکے تمام امت کے لئے شریعت پر عمل کرنے کا راستہ آسان کردیا۔ اس راہ میں انہوں نے جو جانفشانیاں اٹھائی ہیں، اس کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایک حدیث کے لئے راتوں اور دنوں کا سفر کیا، خشکی کا سفر کیا، بیابان کی خاک چھانی سمندروں کو پار کیا۔ مال لٹایا، فاقہ کیا، تو کیا یہ لوگ حضورﷺ کی غلط سلط باتوں کوجمع کرنے کے لئے یہ محنت و مشقت اٹھاتے تھے؟ (معاذ اﷲ) یہ لوگ تو متقی، پرہیزگار، موحد، سچے عاشق رسول تھے اور ان کی محبت میں دیوانے تھے۔ اخلاص کے پیکر تھے۔ ان محدثین کے بارے میں یہ تصور بھی ہمارے لئے گناہ ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر حضورﷺ کی طرف منسوب جھوٹی باتوں کواپنی کتابوں میں درج کیا۔ جبکہ انہی محدثین نے حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے ’’جس نے میرے اوپر جان بوجھ کرجھوٹ گڑھا، اس کاٹھکانہ جہنم ہے‘‘ تو کیا امام بخاری، امام مسلم، امام ابو دائود، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ رحمہم اﷲ اور ان جیسے دوسرے محدثین کے بارے میں یہ لب کشائی جائز ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کی طرف منسوب جو جھوٹی باتی تھی۔ اسی کواپنی کتابوں میں درج کرکے اتنے بڑے گناہ کاکام کیا۔ معاذ اﷲ یقینا نہیں۔ حالانکہ انہی محدثین نے احادیث کے درجے قائم کئے۔ لیکن ضعیف احادیث روایات کے بارے میں کیا منہج تھا۔ آئندہ صفحات میں اسی کو واضح کیا جائے گا تاکہ آج کے اس فتنہ سے بچا جاسکے۔ جو سلف کے نام پر دھبہ لگا رہے ہیں۔ محدثین نے یہ درجے صرف حدیث کو سمجھنے کے لئے کئے۔ اور جھوٹی روایات کو بالکل الگ کردیا مگر آج کے یہ نااہل لوگ ضعیف روایات کو جھوٹی روایات کے ساتھ ملا رہے ہیں۔ حالانکہ محدثین کے نزدیک احادیث کو قبول کرنے کا الگ الگ پیمانہ ہے۔ جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔ اگر کسی محدث کے نزدیک ایک روایت صحیح نہیں، تو دوسرے محدث کی شرط پر صحیح ہے تو کیا جس محدث کے نزدیک وہ حدیث صحیح نہیں، تو کیاوہ مردود ہے؟
بہرحال ہماری گزارش یہ ہے کہ ضعیف احادیث کا کلی انکار کرنا اور ان کو احادیث کی فہرست سے خارج کردینا اور ان کو مردود قرار دینا، یہ اسلاف کی طرز اور ان کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ حدیث دوستی نہیں،حدیث دشمنی ہے۔یہ دین نہیں، بے دینی ہے۔ یہ سلفیت نہیں، رافضیت ہے۔ یہ سنت نہیں، بدعت ہے۔یہ راستہ مومنین کا نہیں بلکہ منکرین حدیث کا ہے۔یہ طریقہ محدثین کانہیں، بلکہ آج کے نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کا ہے۔ اسلاف کا طریقہ ہے کہ وہ ضعیف اہادیث کو قبول کرتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی راوی ظاہر العدالتہ ہے۔ تو اس کی روایت قبول کی جائے گی۔ خواہ اس سے روایت کرنے والے کئی ہوں یا ایک۔ تو اس کی بنیاد پرقرآن کی یہ آیت ہے۔ ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو‘‘ (پارہ26، سورۃ الحجرات آیت6)
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص فسق سے محفوظ ہو تو اس کی بات کو قبول کیا جائے گا۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بہت سی وہ روایتیں جن پر محدثین ضعف کا حکم لگاتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ علیہ کے ہاں وہ صحیح ہیں۔اب نئے نام نہاد محققین دیگر محدثین کے فیصلے کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ کے مسائل کو جانچنا شروع کردیتے ہیں اور ان کے مسائل کے دلائل قوی اور صحیح ہوتے ہیں۔ راقم چونکہ جامع ترمذی کی شرح ’’فیوض النبوی‘‘ کے نام سے لکھ رہا ہے اس لئے جامع ترمذی ہی سے اس کی چند مثالیں دیتا ہوں۔ کہ سلف صالحین کا ضعیف روایات پر عمل تھا۔
1… عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ
قال سالت رسول اﷲﷺ عن صید البازی؟
یعنی میں نے رسول اﷲﷺ سے باز کے شکار کردہ جانور کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کھانا حلال ہے یا نہیں۔ فقال ماامسک علیک فکل۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جو کچھ وہ تمہارے لئے پکڑرکھے اسے کھالو‘‘ امام ترمذی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ہم بواسطہ مجالدعن الشعبی کی سند سے جانتے ہیں۔ والعمل علیٰ ہذا عنداہل العلم یعنی اس حدیث پر اہل علم کا عمل ہے (جامع ترمذی مترجم 734/1 طبع فرید بک اسٹال لاہور)
حالانکہ مجالد ضعیف راوی ہے۔ جیسا کہ زبیر علی زئی صاحب (مدیر ماہنامہ الحدیث) نے بھی انوار الصحیفہ صفحہ نمبر 102 برقم 2827 میں لکھا مجالد ضعیف قال الہیشمی وضعفہ الجمہور (مجمع الزوائد 416/9)
اس روایت پر اہل علم کا عمل ہے سے ثابت ہوا کہ اہل علم ضعیف روایتوں کو قبول کرتے اور اس کی بنیاد پر عمل بھی کرتے تھے۔ یہ اہل علم صحابہ و تابعین، محدثین و فقہاء ہیں۔
2… امام ترمذی رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
عن ابی واقد اللیثی قال قدم النبیﷺ المدینۃ وہم یجبون اسنمۃ الابل ویقطعون الیات الغنم قال ماقطع من البہیمۃ وحیۃ فہو میتۃ
ترجمہ: حضرت ابو واقد لیثی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مدینہ تشریف لے آئے۔ وہاں کے لوگ زندہ اونٹوں کے کوہان، زندہ دنبوں کی چکیاں کاٹتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ زندہ جانور سے جوحصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے (جامع ترمذی 739/1، مترجم طبع فرید بک اسٹال لاہور)
اس سند میں عبدالرحمن بن عبداﷲ بن دینار القرشی مولیٰ ابن عمر ہیں۔ جن کے بارے میں ابن حجر عسقلانی تقریبا التہذیب 577/1 برقم 3927 میں فرماتے ہیں۔ صدوق ، یخطی اسی طرح تہذیب الکمال209/17 برقم 3866 میں ہے۔
عن یحیی بن معیض فی حدیثہ عندی ضعف
یحیی بن معین فرماتے ہیں۔ اس حدیث میں ضعف ہے۔ اسی میں ابو حاتم فرماتے ہیں ولا یحتج بہ اس سے حجت نہ پکڑی جائے اور ابن عدی فرماتے ہیں۔ اس کی بعض روایتیں منکر ہیں۔ ابن جوزی نے اسے ’’الضعفائ‘‘ صفحہ 94 میںلکھا۔ اسی طرح ابن حبان نے ’’المجروحین‘‘ 52,51/2 لکھا۔ اب محدثین کی اصطلاح کے اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ مگر امام ترمذی فرماتے ہیں۔ والعمل علیٰ ہذا عنداہل العلم یعنی اہل علم (فقہاء و محدثیں) کا اسی پر عمل ہے (جامع ترمذی 739/1)
3… امام ترمذی روایت کرتے ہیں۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے۔
من ملک ذارحم محرم فہو حر
یعنی جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کی غلامی میں آجائے، آزاد ہوجائے گا۔ (جامع ترمذی 685/1)
اب اس روایت کے بارے میں امام ترمذی ہی فرماتے ہیں۔ وہو حدیث خطاء عند اہل الحدیث یعنی محدثین کے نزدیک اس روایت میں خطاء ہے (دیکھئے جامع ترمذی 685/1 باب ماجاء فی من ملک ذا محرم)
اسی روایت کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں ’’لایصح‘‘ یہ صحیح نہیں ہے۔امام بخاری کے ستاد علی بن مدینی فرماتے ہیں’’ ہو حدیث منکر‘‘ یہ حدیث منکر ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں ’’حدیث منکر‘‘ یہ حدیث منکر ہے۔ (التلخیص الحبیر 508/4، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
لیکن ابن اثیر فرماتے ہیں:
والذی ذہب الیہ اکثر اہل العلم من الصحابۃ والتابعین والیہ ذہب ابو حنیفۃ واصحابہ واحمد ان من ملک ذا رحم محرم عتق علیہ ذکر او انثیٰ (النہایہ فی غریب الاثر 504/2)
یعنی اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ وتابعین کا عمل ہے۔ اور اسی کے قائل امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں۔ اور یہی مذہب امام احمد کابھی ہے۔ ان حضرات کے یہاں کوئی شخص اپنے کسی رشتہ دار محرم کا مالک ہوجاتا ہے تو وہ محرم آزاد ہوجائے گا خواہ وہ محرم مذکر ہو یا مونث۔ذرا اندازہ لگائیں۔ جو حدیث امام بخاری، امام مدینی،امام نسائی کے نزدیک ضعیف ہو، مگر ان سے پہلے لوگوں جن میںصحابہ و تابعین وفقہاء و محدثین کااس حدیث پر عمل ہے۔ یہ ہے سلف کا طریقہ ضعیف حدیث کے بارے میں۔ جامع ترمذی کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ امام ترمذی رحمتہ اﷲ علیہ کسی حدیث کے بارے میں اگر یہ فیصلہ کریں کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ اور پھر یہ کہیں کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے تو گویا یہ امام ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح ہے۔یعنی امام ترمذی اصول محدثین پر اس کو ضعیف کہہ رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے وہ حدیث ان کے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضورﷺ کے صحابہ و تابعین اس پر عمل کیوں کرتے جس طرح امام ترمذی محدثین کی اصطلاح کے اعتبار سے ضعیف حدیث کو ذکر کرتے ہیں پھر یہ کہہ کر کہ اس پر اہل علم، صححابہ و تابعین، فقہاء و محدثین کاعمل ہے۔ اس حدیث کی صحت کااشارہ کرتے ہیں۔ اس طرح امام ابو دائود، امام نسائی، امام ابن ماجہ اپنی اپنی کتاب میں یہی طرز اختیار کرتے ہیں ۔یعنی یہ حضرات عام طور پر انہی حدیثوں کو ذکرکرتے ہیں۔ جس پر دور اول میں مسلمانوں کا عمل رہا ہو۔ ان کتابوں میں گنتی کی چند ہی روایتیں ایسی ہوں گی۔ جو سنداً ضعیف ہوں مگر ان پر عمل کرنا جائز نہ ہو ابن ماجہ میں کچھ ایسی روایتیں ضرور ہیں۔ جن پر محدثین نے شدید جرح کی ہے۔ امام ابو دائود اپنی کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں۔
واما ہذا المسائل مسائل الثوری ومالک والشافعی فہذہ الاحدیث اصولہا
ترجمہ: اور امام ثوری، امام مالک، اور امام شافعی کے جو مسائل ہیں تو یہ احادیث اس کی اصل ہیں (رسالہ ابی دائود صفحہ 28، طبع بیروت)
امام ابودائود کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری کتاب میںجو حدیثیں ہیں۔عام طور پر ان ائمہ کرام کے مذہب کی بنیاد انہیں احادیث پر ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ سنن ابو دائود کی کچھ حدیثیں اصول محدثین کے مطابق ضعیف بھی ہوںتو ان ائمہ کرام نے ان احادیث پر اپنے قول اور اپنے فقہ کی بنیاد رکھی ہے۔ یعنی یہ تمام احادیث ان ائمہ کرام کے یہاں معمول بہا ہیں۔ جب ان ائمہ نے ان کواحکام میں قبول کیا ہے۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان ائمہ کرام کے نزدیک فی الاصل یہ احادیث ضعیف ان معنی میں نہیںہیں کہ یہ رسول اﷲﷺ کی احادیث نہیں ہیں۔ بلکہ محض اصول محدثین پر ضعیف ہیں۔ جو احادثین کے اصول پر ضعیف ہوں۔ ان کا ترک کرنا کسی امام کے ہاں ضروری نہیں۔ لیکن یہ کہ ان ائمہ کرام کو خود ان کا ضعف اتنا واضح ہو کہ اس کی نسبت حضورﷺ کی طرف کرنا درست نہ ہو۔ امام ابو دائود اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں۔
والاحادیث التی وضعتہا فی کتاب السنن اکثرہا مشاہیر
ترجمہ: میں نے اپنی سنن کی کتاب میںجو احادیث داخل کی ہیں، ان میں اکثر مشہور ہیں (رسالہ ابی دائود ص 29)
یہاں مشہور سے مراد یہ ہے کہ ان پر ائمہ فقہاء کاعمل ہے۔ اگرچہ وہ اصطلاحاً ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ’’امام ابو دائود نے جن احادیث کو ذکر کرکے ان پر سکوت اختیار کیا ہے وہ چار قسم ہیں۔
1… بعض وہ جو بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں یا ان میں موجود ہیں۔
2…بعض وہ جو حسن لذاتہ کی قبیل سے ہیں
3… بعض وہ جو حسن لغیرہ ہیں اور یہ دونوں زیادہ ہیں
4… بعض وہ جو ضعیف ہیں پھر فرماتے ہیں
وکیل ہذا الاقسام عندہ تصلح للاحتجاج بہا
ترجمہ: اور یہ تمام قسمیں (امام ابو دائود) کے نزدیک قابل احتجاج ہیں (النکت علی کتاب ابن الصلاح435/1)
ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث سے حجت پکڑی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے ان محدثین نے ضعیف احادیث کو اپنی کتابوں میں داخل کیا۔ مگر آج ان ضعیف احادیث کو ان البانیوں اور اصل میں منکرین حدیثوں نے ان احادیث کو ترک کروا رکھا ہے۔ جو سلف کا طریقہ نہیں،بلکہ نئی بدعت ہے۔ یہ دراصل خود بدعتی ہیں مگر دوسروں کو بدعتی بدعتی کہتے تھکتے نہیں۔ خوب جان لوکہ مطلقا کلی طور پر ضعیف حدیث کا انکار دور جدید کا فتنہ ہے۔ محدث شام شیخ عبدالفتاح ابو غدہ فرماتے ہیں:
’’محدثین، ائمہ متقدمین اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث بھی ذکر کیا کرتے تھے تاکہ ان پر بھی عمل ہوجائے اور ان سے مسائل شرعیہ میںدلیل پکڑی جائے۔ ضعیف احادیث سے ان کو پرہیز نہ تھا۔ اور نہ وہ ان احادیث ضعیفہ کو منکر اور پس پشت ڈالنے والی بات کرتے تھے جیسا کہ آج بعض مدعیوں کا دعویٰ ہے (ظفر الامانی ص 176)
ابن عبدالبر، کتاب ’’التہمید‘‘ 58/1 میں فرماتے ہیں:
ورب حدیث ضعیف الاسناد صحیح المعنی
یعنی بہت ساری احادیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہوتی ہیں مگر معنی کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں۔
حدیث کا معنی ہی تو اصل ہے۔ سند تو محض حدیث تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ذریعہ خراب ہے اور اصل صحیح ہے۔ تو اصل کو اختیار میں کون سی چیز مانع ہے۔اور محض ذریعہ کی خرابی کی وجہ سے اصل ہی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا انکار کیا جائے۔ یہ کون سی عقل مندی ہے۔ امام بخاری رحمتہ اﷲ سے بڑا محدث ان نام نہاد سلفیوں اور البانیوں کے نزدیک اور کوئی نہیں۔ آیئے ذرا ان کی کتب میں ضعیف احادیث کی کیا حیثیت ہے دیکھئے ہیں۔
صحیح بخاری کے سوا باقی ساری کتب ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہیں۔ او راس سے تو ان کو بھی انکار نہیں، یہاں تک کہ ’ادب المفرد‘‘ کے دو حصے کردیئے۔ امام بخاری رحمہ اﷲ نے تو صحیح بخاری میںبھی ضعیف راویوں سے روایتیں ہیں۔ کچھ تعلیقاً، فضائل اور ترغیب وترہیب کے باب میں۔ اس کی مثال حاضر ہے۔
1… ایک راوی ہے۔ اسدی بن زید بن الجمال۔ جس سے امام بخاری نے ’’صحیح بخاری باب یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب برقم 6541 مطبوعہ قاہرہ‘‘ میں ایک روایت لی ہے۔ یہ راوی ضعیف ہے۔
2… امام نسائی فرماتے ہیں۔ متروک الحدیث (کتاب الضعفاء والمتروکین برقم 54)
3… امام ذہبی نے مغنی فی العضاء 90/1 برقم 747 میںبحوالہ یحیی بن معین کذاب اور متروک لکھا
4… امام دار قطنی نے ضعفاء میں شمار کیا (کتاب الضعفاء والمتروکین)
5ْ… علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ’’کذب، دار قطنی نے اسے ضعیف قرار دیا‘‘ (تہذیب التہذیب، 301/1، برقم 628)
6… ابن شاہین نے کذاب لکھا (تاریخ اسماء الضعفاء والکذابین ابن شاہین 47/1، برقم 3)
7… ابن حبان نے مجروحین 180/1 میںلکھا
8… یحییٰ بن معین نے کذاب کہا (تاریخ ابن معین روایتاً الدوری برقم 1914
9… ابن ابی حاتم رازی نے کذاب لکھا (الجرح والتعدیل 318/2 برقم 1204)
10… امام ابن جوزی نے الضعفاء والمتروکین 124/1 برقم 432 کے تحت کذاب، متروک لکھا
11… امام عقیلی نے بھی العضاء للعقیلی 28/1 میں کذاب لکھا
12… ابن عدی نے الکامل فی الضعفاء 400/1 کذاب ، متروک لکھا
13… سوالات لابن الجنید لابی ذکریا یحییٰ بن معین 292/1 برقم 79 کذب لکھا۔ اب اتنا سخت ضعیف راوی ہے لیکن امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے صحیح بخاری میں اس سے روایت لے رہے ہیں۔ اب ذرا سنئے غیر مقلدین کی بھی ، لکھتے ہیں ’’بفرض تسلیم اگر یہ ایسے ہی ہیں، جیسا کہ معترض نے لکھا ہے تو ہم کومضر نہیں۔ اس لئے کہ امام بخاری نے جس حدیث کو اسید بن زید سے روایت کیا ہے وہ بطور متابعت کے ہے (دفاع صحیح بخاری ص 452 مطبوعہ گوجرانوالہ)
آخر متابعت میں بھی امام بخاری رحمہ اﷲ نے اس ضعیف راوی کو اہمیت دی۔ یہی ہم بھی سمجھا رہیہیں۔ کہ ضعیف روایات کو متقدمین نے یکسر چھوڑ نہیں دیا تھا۔ جیسا کہ آج کل کے جاہل لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمایئے۔ امام بخاری رحمہ اﷲ نے صحیح بخاری 99/1 میں، باب وجوب الصلوٰۃ فی الثیاب قائم کیا پھر فرماتے ہیں:
ویذکر عن سلمۃ بن اکوع ان النبیﷺ قال یزرہ ولو یشوکۃ فی اسنادہ نظر
یعنی سلمہ بن اکوع رضی اﷲ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ نبیﷺ بٹن لگایا کرتے تھے، اگرچہ کانٹا ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی سند میں نظر ہے۔ امام بخاری کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر استدلال فرما رہے ہیں۔ طوالت کے خوف اتنا ہی کافی ہے ورنہ صحیح بخاری میں بھی فضائل، مناقب میں امام بخاری رحمہ اﷲ نے ضعیف راویوں کی روایتوں سے استدلال فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ متقدمین ضعیف روایتوں سے استدلال فرماتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصلاحا روایت ضعیف ہوتی ہے۔ اور اس کا مضمون خلاف قیاس ہوتا ہے۔ تو ایسی صورت میں تمام فقہاء خصوصا ائمہ اربعہ قیاس کے مقابلے میں اس ضعیف روایت پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ ابن قیم صاحب نے اعلام الموقعین 25/1 میں لکھا۔ اب ان نئے منکرین حدیث نے کہا کہ یہ ضعیف حدیث ہے لہذا اس کو چھوڑ دینا چاہئے اور چھوڑ دیا، اور اپنے قیاس پر عمل کرلیا اور اس کا نام اہل حدیث رکھ لیا۔ اب ان منکرین حدیث کا دوسرا روپ بھی دیکھئے۔ کہ جب اپنے مطلب کی روایت ہو، خواہ وہ ضعیف ہو، اس کو راجح کہہ کر قبول کرلیتے ہیں۔ اور دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم صحیح و حسن احادیث پر عامل ہیں۔ ان لوگوں کا ضعیف احادیث پر عمل دیکھئے۔
1… امام ترمذی رحمہ اﷲ نے جامع ترمذی میں حضورﷺ کا قول نقل کیا۔ ’’جو شخص وضو کرتے وقت بسم اﷲ نہیں پڑھتا، اس کا وضو نہیں‘‘ (جامع ترمذی 90/1 مترجم)
یہ روایت ضعیف ہے۔ اس بارے میں جتنی روایتیں ہیں وہ بھی سب ضعیف ہیں، جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’’بلوغ المرام ص 11، امام زیلعی نے نصاب الرایہ 4/1، حافظ ابن رشد نے بدایۃ المجتہد 17/1، اور عبدالرحمن مبارک پوری غیر مقلد نے تحفۃ الاحوذی 35/1 میں لکھا۔ مگر اس کے باوجود غیر مقلدین نے مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کا یہ فیصلہ آنکھیں بند کرکے قبول کرلیا۔
لاشک فی ان ہذا الحدیث نص علی ان التسمیۃ رکن للوضوء
یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث نص ہے۔ کہ بسم اﷲ پڑھنا، وضو کا رکن ہے (تحفتہ الاحوذی 38/1)
اب اس حدیث کو قبول کرتے ہوئے غیر مقلدین نے بسم اﷲ پڑھنے کو وضو کا فرض مانا ہے۔ حالانکہ ان کے اصول کے مطابق فرض تو دور کی بات ، اس روایت پر ان کے ہاں عمل کرنا ہی جائز نہیں ہونا چاہئے۔ مگر کیا کیا جائے، ہے جو اپنے مطلب کی روایت۔
2… غیر مقلدین اونچی آواز میںآمین کہنے کے بارے میں اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا۔ حالانکہ رسول اﷲ جب غیر المغضوب علیہم والالضالین پڑھتے تو آمین بھی اتنی زور سے کہتے۔ کہ پہلی صف والے سنتے اور مسجد گونج اٹھتی۔ یہ روایت سنن ابن ماجہ 278/1 برقم 853 ہے۔ اس کو ناصر الدین البانی نے ضعیف کہا ہے۔ اس کا ایک راوی بشر بن رافع پر امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی اور دیگر محدثین نے سخت جرحیں کی ہیں اور جمہور کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔ مگر غیر مقلدین کے عوام اور ان کے محدثین و محققین نے اس ضعیف حدیث کو قبول کیا ہے کیونکہ اپنے مطلب کی ہے۔
3… غیر مقلدین ظہر کی نماز سارا سال اول وقت میں پڑھتے ہیں۔ جامع ترمذی 292/1 برقم 55 ایک روایت ہے۔ یہ ضعیف روایت ہے۔ اس کو ناصر الدین البانی نے بھی ضعیف کہا ہے۔ اس کی سند میںایک راوی حکیم بن جبیر ہے۔ محدثین نے اس پر سخت کلام کیا ہے۔ امام احمد، امام بخاری، امام نسائی، امام دارقطنی، امام شعبہ، ابن مہدی، امام جوزجانی نے ضعیف، متروک الحدیث، کذاب وغیرہ قرار دیا ہے (دیکھئیِ: میزان الاعتدال 584/1 برقم 2215)
مگر ان سخت جرحوں کے باوجود بھی غیر مقلدین کا اس روایت پر عمل وفتویٰ ہے۔ کیونکہ اپنے مطلب کی ہے لہذا ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث ضعیف کا مطلقا انکار کرنا، انکار حدیث ہے اور سلف صالحین، متقدمین و متاخرین، محدثین، مفسرین، فقہاء کرام اور علماء اہل سنت کا یہ طریقہ نہیں تھا جو آج بزعم خود اہل حدیث کہلوانے والوں کا ہے۔ ان کا یہ طریقہ کہ مطلق ضعیف احادیث کا انکار، دراصل منکرین کا نیا روپ ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔