علم غیب نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم پر شبہات کے جوابات ۔ از قلم : استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۱۔ اول یہ کہ ہم حضور ﷺ کے لئے جو ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم ثابت کرتے ہیں وہ تدریجاً ہے اس لئے جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ فلاں بات کا علم حضور کو آخر عمر شریف تک نہ دیا گیا اس وقت تک ہمارا دعویٰ باطل ہو نہیں سکتا۔
رہا قیامت کا واقعہ جس میں مذکور ہے کہ جماعت مرتدین کو حضور ﷺ اصیحابی اصیحابی فرما کر بلائیں گے اور اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم، انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور کو قیامت کے دن بھی بعض باتوں کا علم نہ ہو گا۔ یہ عجیب قسم کا شبہ ہے جو دلیل مثبت علم ہو اس کو نفی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ غور فرمایئے یہ واقعہ قیامت کے دن ہو گا لیکن حضور ﷺ اس کو پہلے بیان فرما رہے ہیں ’’علم نہ تھا تو بیان کیسے فرمایا؟‘‘
رہی یہ بات کہ پھر حضور سے یہ کیوں کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم شریف جلد ثانی مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ص ۲۴۹ میں منکرین کی یہی پیش کردہ حدیث بایں الفاظ موجود ہے۔
فیقال اما شعرت ما عملوا بعدک
’’حضور ﷺ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کام کئے۔‘‘
’’ما شعرت‘‘ جملہ منفیہ پر ہمزہ استفہام انکاری داخل ہوا۔ نفی کا انکار اثبات ہوتا ہے۔ لہٰذا حدیث مبارکہ سے مرتدین کے اعمال کا علم حضور سید عالم ﷺ کے لئے ثابت ہوا۔ چونکہ واقعہ ایک ہے، صرف اس کی روایتوں میں تعدد ہے اس لئے جب ایک روایت میں ہمزئہ استفہام مذکور ہو گیا تو ہر روایت میں اس کے معنی ملحوظ رہیں گے اور جس روایت میں وہ مذکور نہیں وہاں محذوف ماننا پڑے گا۔ مثلاً ’’انک لا تدری‘‘ والی آیت میں ہمزہ مذکور نہیں تو یہاں محذوف مانیں گے اور اصل عبارت یوں ہو گی کہ ’’ئانک لا تدری‘‘ کیا آپ نہیں جانتے؟ … ورنہ حدیثوں میں تعارض ہو گا کیونکہ ہمزہ استفہام کا محذوف ہونا تو صحیح ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں محذوف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقولہ ’’ہٰذا ربی‘‘ میں مفسرین نے ’’اہٰذا ربی‘‘ فرمایا ہے یعنی کیا یہ میرا رب ہے لیکن اس کا زائد ہونا صحیح نہیں۔
اگر ’’ئانک لا تدری‘‘ والی روایت میں ہمزہ استفہام محذوف نہ مانیں تو ’’اما شعرت‘‘ والی روایت میں ہمزہ کو مخدوف ماننا پڑے گا جو کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً جبکہ حضور سید عالم ﷺ کے کمال علمی کی نفی ہوتی ہو۔
پھر یہ کہ احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو اپنی امت کے تمام اچھے اور برے اعمال کا علم ہے۔ ترمذی شریف میں حدیث وارد ہے
عرضت علی اعمال امتی حسنہا وقبیحہا
’’میری امت کے تمام اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے‘‘
اب غور فرمایئے کہ مرتدین بھی حضور ﷺ کی امت میں داخل تھے۔ ان کا مرتد ہونا عمل قبیح ہے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہ۔
جب امت کے تمام اعمال حسنہ اور قبیحہ حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو ان کا ارتداد جو عمل قبیح ہے وہ بھی ضرور پیش ہوا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے عملوں کا علم نہ ہونا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ حدیث مذکور کے یہی معنی صحیح ہیں کہ اے حبیب ﷺ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا عمل کئے۔ آپ کو معلوم تو ہے پھر بھی آپ غلبۂ رحمت کے حال میں ان کو اپنی طرف لے جا رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کریم کو سخاوت کرنے کے لئے بٹھا دیا جائے تو اس وقت اس کے دریائے سخا میں ایسا جوش ہوتا ہے کہ دشمن کی دشمنی کی طرف اس کی توجہ نہیں رہتی اور وہ بے اختیار اپنے کرم کا دامن اس کی طرف پھیلا دیتاہے۔ جب اسے توجہ دلائی جائے تو اس وقت متوجہ ہوتا ہے۔‘‘
یہاں بالکل یہی معاملہ ہے۔
ساقیٔ کوثر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حوضِ کوثر پر رونق افروز ہیں۔ اپنے غلاموں کو چھلکتے ہوئے جام پلا رہے ہیں۔ مرتدین کی جماعت ادھر سے گزرتی ہے۔ حضور کو ان کے عملوں کا پورا پورا علم ہے مگر اس وقت دریائے جود و سخا موجزن اور شانِ رحمت کا ظہور اتم ہے اس لیے ان کی بداعمالیوں کی طرف خیال مبارک جاتا ہی نہیں اور اپنے لطف عمیم اور کرم جسیم کے غلبہ حال میں بے اختیار فرما دیتے ہیں، اصیحابی اصیحابی۔
لیکن جب توجہ دلائی جاتی ہے کہ ’’اما شعرت ما احدثوا بعدک‘‘ پیارے! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا؟
پس فوراً توجہ مبارکہ ان کی بد اعمالیوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اور ارشاد فرماتے ہیں ’’سحقا سحقا‘‘ انہیں دور لے جاؤ، دور لے جاؤ!
طالب حق کے لئے اس حدیث کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے یہ بیان کافی ہے۔
منکرین کا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزِ قیامت شفاعت کے موقع پر جب میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دوں گا اور طویل سجدہ کروں گا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے چند محامد مجھے تعلیم فرمائے گا جو اس وقت مجھے معلوم نہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور کو تمام ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم نہ تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو حدیث پاک میں حضور ﷺ نے حقیقت علم کی نفی نہیں فرمائی۔ ارشاد فرمایا ’’لا تحضرنی الاٰن‘‘ وہ محامد اس وقت میرے ذہن اقدس میں حاضر نہیں۔ کسی بات کا ذہن میں حاضر نہ ہونا عدم علم کو مستلزم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کا علم ہو مگر کسی وقت اس کا استحضار نہ ہو اور اگر ’’لا تحضرنی الاٰن‘‘ کے یہی معنی کئے جائیں کہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تو اس سے یہ کب لازم آیا کہ وقت وصال تک ان کا علم نہ ہو گا۔ بہرنوع اس حدیث سے بھی ہمارے مسلک پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔
رہا یہ واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے علم کا تو بخاری شریف میں اسی حدیث افک میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘
’’خدا کی قسم! میں نے اپنے اہل مقدس پر بجز خیر کے کچھ نہیں جانا۔‘‘
اس واقعہ میں حضور ﷺ کا حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے توجہ کو کم کر دینا لا علمی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس تہمت کے بعد غیرتِ محمدیہ ﷺ کا تقاضا یہ تھا کہ جب تک یہ معاملہ اللہ کی طرف سے صاف نہ ہو اس وقت تک سرکار توجہ میں کمی فرمائیں تاکہ کسی دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ حضور ﷺ کو اس قسم کی تہمت سے کوئی نفرت نہیں۔
حضور ﷺ کا غمگین ہونا بھی اس وجہ سے تھا کہ حضور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بے گناہی کا یقین رکھتے تھے۔ صدمہ تو یہی تھا کہ بے گناہ پر تہمت لگی۔ اگر ان کی بے گناہی کا علم نہ ہوتا تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہوتا۔ اگر آج ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص کو بے گناہ پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو ہمیں ضرور صدمہ ہو گا اور اگر اس کی بے گناہی کا علم نہ ہو تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہو گا۔
حضور ﷺ نے حضرت صدیقہ کے معاملہ کی تفتیش خود علم حاصل کرنے کے لئے نہیں فرمائی بلکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی کو ان مسلمانوں کے ذہن میں قائم کرنے کے لئے فرمائی جو مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جب ان کے دلوں میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے بدگمانی راسخ ہو چکی تھی تو بمقتضائے فطرتِ بشریہ یہ بات قرین قیاس تھی کہ حضور ﷺ ان سے بذاتِ خود صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی پر زور دیں تو شاید وہ سرکار کے حق میں بھی بدگمان ہو جائیں اور یہ خیال کریں کہ ان کی عزت کا معاملہ ہے اس لئے اس طرح فرما رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ان پر اس معاملہ میں زور نہیں دیا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ ہمارے حق میں بدگمان ہو کر کفر و ارتداد تک پہنچ جائیں۔ یہاں یہ شبہ کرنا کہ حضور ﷺ کا مقولہ ’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘ ان اصحاب نے بھی سنا ہو گا پھر بھی یہ اپنی بدگمانی پر قائم رہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اول تو یہ ثابت نہیں کہ بدگمانی کرنے والے صحابہ نے یہی جملہ حضور ﷺ سے سنا ہو اور اگر بالفرض سنا بھی ہو تو اپنے قیاس سے اس کو محض حسن ظن پر محمول کیا ہو گا۔ بہر حال اس تحقیق و تفتیش کی حکمت صرف یہ تھی کہ اسباب عادیہ مالوفہ طبائع بشریہ کے ذریعہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوزیشن کو بدگمانی کرنے والے مسلمانوں کے ذہن میں بھی واضح اور صاف کر دیا جائے اور منافقین پر بھی حجت قائم کر دی جائے کہ دیکھو اتنی تحقیق کے بعد بھی کوئی برائی ظاہر نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان میں کوئی برائی پائی ہی نہیں جاتی۔
ایک مہینہ یا اس سے زائد تک اس معاملہ کو طول دینے کی حکمت بھی یہی تھی کہ اگر جلدی سے معاملہ ختم کر دیا جاتا تو لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات رہ جاتے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے حکمت عملی کے مطابق معاملہ کو طول دیا کہ جس طرح چاہو اس طویل عرصہ میں واقعات کی چھان بین کر لو۔ جب کوئی برائی موجود ہی نہیں تو ظاہر کہاں سے ہو گی؟
دیکھئے اگر کسی پر تہمت لگائی جائے کہ تم نے ہمارے سو روپے چرا لئے ہیں اور وہ شخص متہم کو اپنے کپڑوں کی تلاشی دینے لگے اور اپنے گھر اور سامان کی ایک ایک چیز لا کر دکھائے اور لوگوں سے دریافت کرائے کہ بھائی تم نے میرے پاس سو روپے دیکھے ہیں، تمہیں علم ہے بھائی بتاؤ میں نے کبھی چوری کی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کیا اس تحقیق کرنے والے کو اپنا حال معلوم نہیں؟ کیا یہ خود اپنا علم حاصل کرنے کے لئے معاملہ کو طول دے کر اس کی تحقیق کر رہا ہے؟
نہیں نہیں! بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اچھی طرح اس معاملہ کی تحقیق نہ کرائی گئی تو بے گناہی واضح نہ ہو گی اور لوگوں کے دلوں میں میری طرف سے بدگمانی باقی رہے گی۔
بالکل یہی معاملہ یہاں تھا۔ سرورِ کائنات ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی کا یقین تھا مگر ان حکمتوں کے پیشِ نظر بے توجہی اور تحقیق و تفتیش کرائی گئی اور معاملہ کو طول دیا گیا تاکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی ہر طریقہ سے ظاہر ہو جائے۔ اسی حکمت کے تحت ان کی برأت قرآن مجید میں تاخیر سے نازل ہوئی۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب سرکارِ مدینہ ﷺ نے فرمایا کہ اے صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)! اگر تم سے کوئی گناہ ہوا ہے تو تم توبہ کر لو۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ حضور خود علم حاصل کرنے کے لئے یہ بات نہیں فرما رہے بلکہ دوسروں کے اذہان کو میرے حق میں بدگمانی سے پاک فرمانے کے لئے یہ کلماتِ طیبات ارشاد ہو رہے ہیں لہٰذا جواب میں جمع کے صیغے بولتی ہیں اور ایسے الفاظ استعمال فرماتی ہیں جن کے مخاطب حقیقتاً حضور ﷺ ہو ہی نہیں سکتے۔ فرماتی ہیں
انی واللّٰہ لقد علمت لقد سمعتم ہٰذا الحدیث حتی استقرفی انفسکم وصدقتم بہٖ فلئن قلت لکم انی بریئۃ لا تصدقونی ولئن اعترفت لکم بامر واللّٰہ یعلم انی منہ بریئۃ تصدقنی فواللّٰہ لا اجدلی ولکم مثلا الا ابا یوسف حین قال فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔(بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۵۹۶)
’’خدا کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ تم لوگوں نے یہ بات سنی ہے اور تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ اگر میں تم سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں تو تم ہرگز میری تصدیق نہ کرو گے اور اگر تمہارے سامنے کسی ایسے کام کا اقرار کر لوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو مجھے سچا مان لو گے۔ تو خدا کی قسم! جب میرے اور تمہارے لئے سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اور مثل نہیں جب انہوں نے یہ فرمایا کہ ’’فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ‘‘
خدا کے لئے ان الفاظ پر غور فرمایئے کہ یہ بات تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ کیا اس کلام کے مخاطب حضور ﷺ ہو سکتے ہیں؟ کیا سرورِ عالم ﷺ کے قلب اطہر میں نعوذ باللہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برائی بیٹھ چکی تھی؟ کیا حضور ﷺ نے اس کی تصدیق فرما دی تھی؟ جو لوگ اس معاملہ میں حضور ﷺ کے علم کے منکر ہیں وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضور ﷺ نے تو قسم کھا کر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’واللّٰہ ما علمت علی اہلی الاخیرا‘‘ اس کلام کو اگر حسن ظن پر بھی محمول کر دیا جائے تب بھی حضرت عائشہ کے متعلق حضور ﷺ کا حسن ظن ثابت ہو گا۔ حسن ظن کے ساتھ ان کی برائی کا دل میں بیٹھ جانا اور اس کی تصدیق کر دینا کیسے جمع ہو سکتا ہے؟
معلوم ہوا کہ حضرت صدیقہ نے اگرچہ بظاہر حضور کو مخاطب بنایا مگر اپنے اس خطاب کا رُخ انہی لوگوں کی طرف رکھا جو منافقین کے بہکانے میں آ کر مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے میں مبتلا ہو گئے تھے اور ان کے دل میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے برائی بیٹھ گئی تھی اور انہوں نے تہمت لگا کر اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ اگر اس کلام کے مخاطب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں تو نعوذ باللہ حضور بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوں گے کیونکہ کسی پر برائی کی تصدیق کرنا ہی تہمت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ اس سے پاک ہیں۔
تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک حدیث نقل کی۔
ما رفث امرأۃ نبی قط
’’کسی نبی کی بیوی نے کبھی بے حیائی کا کام نہیں کیا۔‘‘
حضرت ابن عباس ایسی بات جو عقل سے وراء الوراء ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے۔ یقینا حضور ﷺ سے سن کر فرما رہے ہیں۔ لہٰذا حدیث حکماً مرفوع ہوئی۔
اس حدیث میں حضور سرورِ عالم ﷺ نے ایک ایسے امر کا بیان فرمایا جو لوازماتِ نبوت سے ہے اور وہ یہ کہ کسی نبی کی بیوی بدکار نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی بیوی بدکار ہو وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہوتا ہے اور اس کی بات بالکل حقیر ہوتی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے شخص کی بات کا کوئی وزن قائم نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ اگر اس میں ذرا بھی حیا کا مادہ ہے تو وہ لوگوں کے سامنے منہ نہیں دکھاسکتا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام ہدایت خلق اور پیغاماتِ ربانی پہنچانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں۔ نعوذ باللہ وہ ذلیل نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ذلت کے اسباب سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان کی بات حقیر نہیں ہو سکتی۔ اگر نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے ایسی ناشائستہ حرکات سرزد ہوں تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ ایسی صورت میں احکام الٰہی کی تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے؟ لہٰذا انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے بے حیائی متصور نہیں۔ بعض انبیاء کی بیویاں کافرہ ہوئیں لیکن بے حیا نہیں ہوئیں۔ کفر تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے مگر اس میں فحش اور بے حیائی نہیں ہے۔
جب آپ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ خود حضور نبی کریم ﷺ نے ازواجِ انبیاء کی پاک دامنی اور عفت کا لازمۂ نبوت ہونا بیان فرمایا ہے تو اب اس امر پر غور فرمایئے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ حضرت صدیقہ کی پاکی میں کس طرح شک فرما سکتے ہیں۔ اگر صدیقہ کی پاکی حضور ﷺ کے نزدیک یقینی نہ ہو تو پھر اپنی نبوت بھی نعوذ باللہ سرکار کے نزدیک یقینی نہ رہے گی۔ جب حضور ﷺ کا اپنی نبوت پر ایمان ہے اور حضور یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی کی بیوی پاک ہوتی ہے تو ان دونوں کے ملانے سے نتیجہ واضح ہو جاتا ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں ذرہ برابر بھی شک نہ تھا کیونکہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک خود حضور ﷺ کی اپنی رسالت میں شک کو مستلزم ہے اور حضور اپنی رسالت میں شک کرنے سے بالکل پاک ہیں لہٰذا صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک کرنے سے بھی حضور قطعاً پاک اور مبرا ہیں۔
اس کے بعد دوسرے شبہات کو لیجئے کہ حضور ﷺ نے زہر آمیز گوشت کیوں کھایا؟ ستر قاریوں کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا تھا، کیوں بھیجا؟ حضرت عائشہ صدیقہ کے ہار کا حال کیوں نہ معلوم ہوا؟ وغیرہ وغیرہ
ان کے متعلق ایک جواب تو ہم پہلے دے چکے دوسرا جواب یہ ہے
کہ اس قسم کے تمام وقائع کو لاعلمی محمول کرنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ جب ’’کُل‘‘ اور ’’ما‘‘ وغیرہ الفاظ عموم قرآن و حدیث وارد ہو چکے اور ان میں کسی قسم کی تخصیص شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے نہیں ہوئی تو ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ان واقعات کو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کی لاعلمی پر محمول کریں۔ کیا یہ جائز نہیں کہ حضور ﷺ کے علم کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر کسی امر خاص کی طرف حضور کی توجہ ہٹا دے یا کوئی خاص بات حضور ﷺ سے بھلا دے۔
کسی حکمت کی بنا پر (خواہ اسے ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں) حضور ﷺ پر ذہول و نسیان کا طاری ہونا ہمارے نزدیک جائز ہے۔ یہ شان اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کہ ذہول و نسیان و عدم توجہ وغیرہ سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور رسول اللہ ﷺ کے علم میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ علم الٰہی میں کسی قسم کا تغیر جائز نہیں اور حضور کے علم میں زیادتی، ذہول و نسیان جائز ہے۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہار کی طرف سے حضور کے ذہول میں یہ حکمت تھی کہ صحابہ جن کے پاس اس سفر میں پانی نہ تھا اور اس وقت تک تیمم کا حکم بھی نہ آیا تھا، ہار کی گمشدگی کے باعث بے وضو نماز پڑھنے کے مرحلہ تک پہنچ جائیں اور ان کے لئے مجبوری کی وہ حالت پیدا ہو جائے جو تیمم جائز ہونے کی شرط ہے اور پھر اللہ تعالیٰ تیمم کا حکم نازل فرمائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اگر یہ واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا تو اس کے ساتھ جن احکام شرعیہ کا تعلق تھا وہ کیسے مرتب ہوتے؟
ستر قاریوں کی شہادت جو ان کے حق میں عظیم الشان کمال تھا کیونکر ظاہر ہوتا، اگر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی توجہ ان کے واقعہ شہادت سے نہ ہٹا دیتا؟
حضور سید عالم ﷺ پر اگر ذہول طاری نہ ہوتا تو زہر کے اثر سے شہادت کا جو کمال حاصل ہوا وہ اسبابِ ظاہری میں کیسے حاصل ہوتا؟
ہمارے اس بیان سے آپ کے سوال پر بھی روشنی پڑ گئی کہ حضور ﷺ کو ہر چیز کا علم ہر وقت ہے یا نہیں؟ ہر چیز سے مراد تو وہی جمیع مخلوقات از ابتدا تا دخول جنت و نار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، غیر متناہی اشیاء ہرگز مراد نہیں اور ہر وقت علم ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز کی طرف توجہ بھی ہر وقت رہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ حضور ﷺ پر ذہول و نسیان جائز ہے اور یہ امر بالکل محتاجِ بیان نہیں کہ ذہول و نسیان علم کے منافی نہیں بلکہ یہ امور مثبت علم ہیں کیونکہ جو چیز معلوم ہی ہو اس کی طرف سے توجہ کا ہٹنا یا اسے بھولنا متصور ہی نہیں۔
رہا یہ امر کہ عدم توجہ اور نسیان کے بعد لاعلمی ہو گی لہٰذا حضور ﷺ کے لئے عدم علم ثابت ہو گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف توجہ نہ رہنا یا اس کا بھول جانا لاعلمی کو مستلزم نہیں۔ اگر ایسا ہو تو ایک دفعہ بھولی ہوئی چیز کبھی یاد ہی نہ آئے لیکن بے شمار بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ اگر بھول کی وجہ سے علم زائل ہو جاتا تو وہ بات کبھی یاد نہ آتی۔ اسی طرح ایک امر معلوم کی طرف سے توجہ ہٹنے کے بعد جب اس کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے تو وہ امر معلوم اجنبی نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کی حیثیت معلومیہ وہی ہوتی ہے جو پہلے تھی۔ یہ بھی بقائے علم کی دلیل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ برے علم جیسے جادو وغیرہ حضور ﷺ کے لائق نہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ علم فی نفسہٖ مذموم نہیں۔ البتہ اس میں عمل کی طرف سے برائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر علوم فی نفسہٖ برے ہوں تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کا عالم ہے۔ نعوذ باللہ اس کی ذات پاک کی طرف برائی منسوب ہو گی۔
یہاں ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ حضور کا علم غیب وحی کے ذریعہ تھا جو بات جبریل علیہ السلام نے بتا دی وہ حضور کو معلوم ہو گئی۔ اس علم کو غیب کیونکر کہا جائے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضور ﷺ کا علم وحی الٰہی اور تعلیم ایزدی کے ذریعہ حاصل ہوا لیکن وحی الٰہی کو صرف جبریل علیہ السلام کے پیغام میں منحصر سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں۔ وحی الٰہی حضور کو خواب میں بھی ہوتی تھی۔ حدیث پاک میں وارد ہے
رویا الانبیاء وحی’’انبیاء علیہم السلام کی خواب وحی ہے‘‘
وحی القاء کے ساتھ بھی ہوتی تھی۔ یعنی قلب اطہر میں کسی بات کا ڈال دینا اور حقیقت یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام قرآن کریم ضرور لائے لیکن علم قرآن حضرت جبریل کے واسطہ کا محتاج نہیں۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب اللدنیہ شریف جلد ثانی ص ۲۹ پر ایک طویل حدیث نقل فرمائی جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
وعلمنی القراٰن فکان جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام یذکرنی بہ
’’اللہ تعالیٰ نے (شب معراج) مجھے تمام قرآن مجید تعلیم فرمایا تو جبریل علیہ السلام مجھے وہ قرآن یاد دلاتے تھے۔‘‘
یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے کہ جبریل علیہ السلام نے جو بات حضور کو بتا دی معلوم ہو گئی، ورنہ نہیں۔
دیکھئے بخاری شریف، مسلم شریف، مسند امام احمد وغیرہ کتب احادیث میں باسانید متعددہ یہ حدیث مروی ہے کہ
انی لا راکم من خلفی کما راٰکم من بین یدی
’’میں تمہیں اپنے پیچھے سے اسی طرح دیکھتا ہوں جیسے اپنے آگے سے دیکھتا ہوں۔‘‘
اور محدثین نے تخصیص کو رد فرما کر عموم کو ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو جو نورِ نبوت عطا فرمایا ہے اس کے ذریعے علم کا حاصل ہونا یہ بھی تو تعلیم ایزدی میں شامل ہے جس کے ادراک کا ذکر حدیث سابق میں آپ نے پڑھا۔ نیز شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عزیزی جلد اول ص ۵۱۸ پر ’’وَیَکُوْن الرَّسُوْل عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یعنی وباشد رسول شما بر شما گواہ۔ زیرا کہ او مطلع است بنور نبوت بر رتبہ ہر متدین بدین خود کہ در کدام درجہ از دین من رسیدہ۔ وحقیقت ایمانِ او چیست وحجابے کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ کدام است۔ پس اومی شناسد گناہان شمار او درجات ایمانِ شمار او اعمال نیک و بد شمار او اخلاص و نفاق شمار او لہٰذا شہادت او در دنیا بحکم شرع در حق امت مقبول و واجب العمل است۔ انتہیٰ
اور زرقانی شریف جلد اول ص ۲۰ پر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ
ورابعہا ان لہ صفۃ بہا یدرک بہا ما سیکون فی الغیب
یعنی ’’نبی میں چوتھی صفت یہ ہے کہ اس کی ذات میں ایک ایسا نور (یعنی نورِ نبوت) ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان باتوں کا ادراک کرتا ہے جو غیب میں آئندہ آنے والی ہیں۔‘‘ مواہب اللدنیہ اور شفاء قاضی عیاض میں ہے
النبوۃ ہی الاطلاع علی الغیب
’’نبوت کے معنی یہ ہیں کہ غیب کا جاننا‘‘
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابو عبد اللہ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں
نعتقد ان العبد ینقل فی الاحوال حتٰی یصیر الی نعت الروحانیۃ فیعلم الغیب
’’ہم اعتقاد کرتے ہیں کہ بندہ ترقی مقامات پا کر روحانی صفت تک پہنچتا ہے اس وقت وہ غیب جانتا ہے۔‘‘
ملا علی قاری علیہ الرحمۃ شرح فقہ اکبر میں حضرت ابو سلیمان دارانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل فرماتے ہیں
الفراسۃ مکاشفۃ النفس ومعاینۃ الغیب
’’فراست نفس کے مکاشفہ اور غیب کے معائنہ کو کہتے ہیں۔‘‘
الیواقیت والجواہر میں امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
للمجتہدین القدم الراسخ فی علوم الغیب
’’مجتہدین کے لئے علوم غیبیہ میں مضبوط قدم ہے۔‘‘
ان عبارات سے ایک تو یہ امر واضح ہو گیا کہ جو لوگ حضور ﷺ کو حصول علوم میں جبریل علیہ السلام کا محتاج بتاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ حضور ﷺ کے جمیع علوم بعطائے الٰہی ہیں اور عطائے الٰہی جبریل علیہ السلام کے واسطہ میں منحصر نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا نورِ نبوت بھی عطیہ الٰہیہ ہے جس کے ذریعہ حضور تمام امور غیبیہ کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ نیز حضور ﷺ کے اس نورِ نبوت کا فیض ایسا عام ہے کہ اولیاء امت بھی اس فیض سے بہرہ اندوز ہیں۔
دوسری یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ حضور ﷺ کے علوم پر لفظ غیب کا اطلاق ناجائز سمجھتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔
دیکھئے عبارت مذکورہ بالا میں حضور سید عالم ﷺ بلکہ حضور کے غلاموں پر بھی علم غیب کا اطلاق موجود ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی جبکہ دیوبندیوں کی عبارات میں اس اطلاق کے ناجائز ہونے کا حکم دیکھتا ہوں۔ حالانکہ مولوی اشرف علی صاحب تغییر العنوان کے ص ۱۸ پر لکھتے ہیں کہ حضور کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالاتِ نبوت میں داخل ہیں اس کا انکار کون کرتا ہے؟ اس عبارت میں حضور سید عالم ﷺ کے علم کو علوم غیبیہ کہہ کر مولوی اشرف علی تھانوی نے تصریح کر دی کہ حضور کے علم کو علم غیب کہنا جائز ہے۔وما علینا الا البلاغ ۔
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔