اسلام پر اعتراض : اسلام امن و آشتی کا داعی نہیں بلکہ دہشت گردی کا مذہب ہے۔قرآن میں ہے”واقتلوھم حیث ثقفتموھم” انہیں جہاں پاؤ،قتل کرو۔{سورہ بقرہ،آیت:۱۹۱}
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس اعتراض کا جواب : جو لوگ ا س آیت کریمہ کو سمجھنے کے باوجود محض اپنی عناد وحسد کی بنیاد پر سیخ پا ہیں ہمیں ان سے غر ض نہیں ،لیکن جو لوگ حق سمجھنا چا ہتے ہیں وہ اس آیت کریمہ میں غور کریں۔
قرآن کہتا ہے”واقتلوھم حیث ثقفتموھم”انہیں جہاں پاؤقتل کر ڈالو۔اس آیت کریمہ کے پڑ ھنے کے بعد سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کس کے بارے میں کہہ رہاہے کہ انہیں قتل کرو جہاں پاؤ؟کیوں کہہ رہاہے کہ انہیں قتل کرو؟ان کا جرم کیا ہے؟نیز انہیں قتل کرانے کا مقصد کیا ہے؟ان تمام پہلو وں پر غور وفکر کئے بغیر اسلام پر دہشت گردی کا الزام لگانا کس قدر خوفناک جہالت ہے اُسے لفظوں میں نہیں بیان کیا جا سکتا۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ اِن تمام سوالوں کا جواب قرآن میں اِسی جگہ پر موجود ہے مگر بُرا ہو انسانیت کے دشمنوں کا کہ انہوں نے اس آیت کریمہ کا اگلا اور پچھلا حصہ چھوڑ کر صرف بیچ کا ایک جملہ نوچ کر عوام کے سامنے پیش کر دیا ۔جس سے کم پڑ ھے لکھے عوام دھوکے میں آگئے۔
ہم یہاں پر متلاشیان حق کے لئے پوری آیت کریمہ لکھ کر اس کا مفہوم واضح کرتے ہیں ۔شاید کہ اتر جائے تیرے دِل میں میری بات۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فر ماتا ہے:وَقَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیۡنَ وَاقْتُلُوۡہُمْ حَیۡثُ ثَقِفْتُمُوۡہُمْ وَاَخْرِجُوۡہُمۡ مِّنْ حَیۡثُ اَخْرَجُوۡکُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۔
تر جمہ: خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ گزرو،بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں فر ماتا ۔اور انہیں قتل کرو جہاں پاؤاور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکا لا ہے۔اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت تر ہے۔
{سورہ بقرہ،آیت:۱۹۰۔۱۹۱}(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن مسلمانوں کو لڑ نے کی اجازت عطا فر مائی جن پر ایک زمانے تک ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ،جنہیں انتہائی اذیت ناک اور ہیبت ناک طر یقے سے ستا یا گیا ،ان کی ننگےجسموں پر کوڑے بر سائے گئے ،زمین وجائداد ضبط کر لئے گئے،پھر بالاٰ خر وہ روز روز کے ظلم وستم سے تنگ آکر دکان ومکان اور زندگی بھر کی ساری کمائی دشمنوں کے حوالے کر کے خالی ہاتھ اپنے وطن مکہ سے ۴۶۵/کیلو میٹر دور یثرب{مدینہ طیبہ} نامی بستی میں پناہ گزین ہوگئے ۔اس کے باوجود ظالموں کا جوشِ انتقام سرد نہ پڑا اور بار بار ان کو تباہ و بر باد کر نے کے لئے فوج کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بھیجتے رہے اور ان کے گلشن امید کو تاخت وتاراج کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
ان کا جرم کیا تھا وہ بھی سن لیجئے!ان کا جرم فقط اتنا تھا کہ انہوں نے لکڑی اور پتھر کے بے جان جھوٹے معبودوں کی پر ستش چھوڑ کر خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ عظمت سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ،جھوٹ،تہمت، دغا،فریب ،عیاری،مکاری،اور لوٹ مار نہ کر نے کا پکا عہد کر لیا،حق وصداقت ،راست وپاکبازی کو اپنا شعار بنا لیا ،مردار کھانے سے انکار کر دیا،ناحق لوگوں کا مال غصب کرنا چھوڑ دیا،وعدہ نبھانے کا عزمِ مصمم کر لیااور اس کے علاوہ دیگر تمام برائیوں سے اپنے دامن کو پاک رکھنے کا تہیہ کر لیا۔تو اس پر اس وقت کے ظالموں نے انہیں اتنا ستا یا کہ آج اس کو بیان کرتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتاہے۔
تب اللہ تعالیٰ نے ان مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو طاقت کا جواب صبر سے دینے کے بجائے طاقت سے دینے کی اجازت دیتے ہو ئے ارشاد فر مایا کہ:قاتلوا۔لڑو،قتل کرو،ظالموں کا پنجئہ استبداد مروڑو،”فی سبیل اللہ” مگر یاد رکھوکہ تمہارے لڑنے کا مقصد اپنے غضبانی جذبے کی تسکین کے لئے نہ ہو ،دشمن کے زرو جواہرات پر قبضہ کر نے کے لئے نہ ہو،اپنے ذاتی انتقام کی آگ بجھانے کے لئے نہ ہو ۔بلکہ اس کا مقصد صرف حق کی سر بلندی ہو،امن وسکون کا قیام ہو ،راست وپاکبازی کو پھیلانا ہو،سچائی کا پر چم لہرانا ہو ،ظلم وزیادتی کی جڑیں اکھاڑنا ہو،مظلوموں کو ظالم کے چنگل سے چھوڑانا ہو۔
اِن سب اعلی ٰمقاصد کی تکمیل کے لئے کن سے جنگ کرنے کی اجازت ہے۔اللہ تعالی ٰ اس کو ان لفظوں میں بیان فر مایا:الذین یقاتلونکم”جو تم سے لڑتے ہیں ،جو تمہیں قتل کرتے ہیں،جو تمہیں اپنی طاقت کے بل پر باطل کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرتے ہیں ،جو انسانیت کے دشمن ہیں۔
مگر اس شر ط کے ساتھ کہ”لاتعتدوا”ان لوگوں سے جنگ میں حد سے نہ گزرنا،یعنی جب جنگ کا بازار گرم ہو ،جذبات اپنے شباب پر ہو،انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہو،اس وقت بھی تم کسی پر ظلم نہ کرنا،حد سے نہ گزرنا ،دشمن کے جو لوگ تمہارے خلاف لڑنے نہ آئے انہیں قتل نہ کر نا،ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا،ان کی کھیتیوں کو بر باد نہ کرنا، ان کی عبادت گاہوں کونہ ڈھانا ،ان کے بوڑھوں کو نہ مارنا۔کیو نکہ”ان اللہ لایحب المعتدین”بے شک تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
“واقتلوھم حیث ثقفتموھم واخر جوھم من حیث اخرجوکم”مذکورہ پابندی اور شرائط کے ساتھ ایسے لوگ جو تم سے قتل و قتال کر نا چا ہتے ہیں ۔جہاں ملے ان کے غرور کو خاک میں ملاؤ،اور ان کا دماغ ٹھنڈا کرکے امن وآشتی کا ماحول پیدا کرو،اور ان کے ظلم کو نہ سہو بلکہ تم انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے اس نے تمہیں نکا لا،کیو نکہ”والفتنۃ اشد من القتل” فتنہ انسانیت کے لئے قتل سے زیادہ سخت اور بُری چیز ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یہ ہے اس آیت کریمہ کا مطلب۔اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ یہ دہشت گر دی کی تعلیم ہے یا امن کی؟
نیز اسلام امن و امان کی کتنی اہمیت دیتا ہےاور کس طر ح سے اپنے ماننے والوں کو لڑائی جھگڑے سے دور رہنے کی تر غیب دیتا ہے ۔یہ ایک بہت ہی لمبا موضوع ہے جو حقیقت سے باخبر ہونا چاہتے ہیں ۔انہیں قرآن وحدیث اور محسن انسانیت حضور رحمت عالم ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کر نا چا ہئیے ۔ہم یہاں پر صرف چندقرآنی آیات و ا حادیث مصطفی ٰ ﷺبغیر کسی تشریح کے نقل کرتے ہیں :
ائے لوگوں،ہم نے تم کو مرد وعورت سے پیدا کیا،اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے،یہ صرف اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو،بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ نیک ہے۔{سورہ حجرات ،آیت:۱۳}
ائے ایمان والوں،مظبوط چٹانوں سا دم خم اپنے اندر پیدا کر لو،اور اللہ کی خاطر عدل و انصاف کو قائم کرو،کسی قوم کی دشمنی ہر گز تمہیں اِس بات پر نہ اُکسائے کہ تم عدل و انصاف سے کام نہ لو۔ہر حال میں انصاف کرو،انصاف تقوی سے قریب ہے اور اللہ سے ڈرو،بے شک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔{سورہ مائدہ،آیت:۸}
جس نے کسی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کا جرم کئے بغیر قتل کر دیا تو گو یا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا،اور جس نے کسی ایک جان کو زندگی بخشی گو یا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کر دیا۔{سورہ مائدہ،آیت:۳۲}
اگر دشمن صلح و سلامتی کا ہاتھ پھیلائیں تو تم بھی اپنے بازوں کو محبت سے پھیلادو،اور اللہ پر بھروسہ رکھو،بے شک وہی سنتا جانتا ہے ،اور اگر وہ تمہیں صلح کے زریعے سے دھوکا دینا چاہیں پھر بھی اللہ تمہارے لئے بڑا کا فی سہارا ہے۔{سورہ انفال،پ۱۰}
حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں فر ماتا۔ {تر مذی،حدیث:۱۹۲۲}
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اور تمام مخلوق میں خدا کاسب سے زیادہ پیا را وہ ہے جو اس کے کنبے کو سب سے زیادہ فائدہپہونچائے۔{طبرانی} اور مسلم کی روایت میں ہے کہ:سارے لوگ ایک کنبہ ہیں۔
(صحیح مسلم)
حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جو حق پر رہتے ہوئے بھی جھگڑا نہ کرے اور اپنا ذاتی نقصان برداشت کر لے تو اس کے لئے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا۔
(ترمذی ،حدیث:۱۹۹۳)
حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا صدقہ ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جس نے طاقت رکھتے ہوئے بھی غصے کو پی لیاتو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے اختیار دے گا کہ جس “حور” کو چا ہے لے لے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جو نر می کرنے سے محروم ہے وہ تمام بھلائی سے محروم ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات بولنا ہے۔(ماخوذ قرآن کریم ، کتب تفاسیر عربی و تبیان القرآن تفسیر ، ضیاء القرآن تفسیر ، ضیاء النبی ﷺ سیرت ، الترغیب اولترہیب )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔