ہمارے نبی رحمۃُ لّلعالمین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رحمت اس جذبہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ذات دوسری ذات کے ساتھ محبت و شفقت،لطف وکرم اور فضل و احسان کا برتائو کرتی ہے اور انہیں موت سے زندگی ،اندھیرے سے اجالے اور بے قراری سے امن وسکون کی طرف لے جاتی ہے۔یہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کے اندر کم وبیش ودیعت فرمایاہے اسی وجہ سے ایک جانور بھی اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور اسے دشمنوں کا شکار ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
مگر تمام مخلوقات میں یہ جذبہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺکو عطا فر مایا،اور آپ کی رحمت کو زمان ومکان ،دوست ودشمن،انسان وحیوان کی تمام تر قیودات سے الگ کر کے بیان فر مایا:و ماارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔اے محبوب ہم نے آپ کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ۔
اسی لئے آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ کسی خاص قوم اور کسی خاص جماعت کے لئے محدود نہ تھا بلکہ آپ جس طرح اپنے دوستوں کے لئے رحمت تھے ویسے ہی اپنے دشمنوں کے لئے بھی،جیسے تمام انسانوں کے لئے رحمت تھے ویسے ہی تمام حیوانوں کے لئے بھی،آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو میں آپ کی رحمت کے جلوے کو دیکھا جا سکتا ہے ہم بطور اختصار یہاں پر چند جھلکیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
تمام انسانوں کے لئے رحمت:حضور رحمت عالم ﷺنے اپنے اقوال وافعال اور اپنے پاکیزہ کردار سے ان تمام افکار و نظریات کو جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتا ہے مثلا طاقت و قوت میں زیادہ ہونا ،دولت وثروت میں فائق ہونا،کسی اعلیٰ خاندان اور ملک میں پیدا ہونا،اعلیٰ خوبیوں کا مالک ہونا،انسان کا خود فراموش ہونااوروہم پرستی وغیرہ کا شکار ہونا۔یہ سب وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک انسان اپنے سے کمزور،غریب،کمتر،بے بس،کمزور،بیوہ،یتیم جیسے انسانوں پرہی نہیںبلکہ خود اپنے جگر کے ٹکڑوں پربھی ظلم روا رکھتا ہے ۔رسول اکرم ﷺنے ایسے تمام افکار ونظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا چنانچہ آپ ﷺنے ارشاد فر مایا:لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مردو عورت سے پیدا کیا ،اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں صرف اس لئے بانٹا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو،تم میں زیادہ عزت والا وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والاہے،چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے ،نہ کسی عجمی کو عربی پر ،نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے،ہاں بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے۔(جو اچھے کاموں کی بدولت اچھا بن جائے وہی اچھا ہے چاہے وہ کسی خاندان کسی ملک اور کسی بھی رنگ کا ہو، امیر ہو یا غریب طاقت وقوت والا ہو یا کمزور،آزاد ہو یا غلام،آقا ہو یا نوکر)۔
سارے انسان آدم کی اولاد ہیں،اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے ،اب فضیلت وبرتری کے سارے دعوے،خون ومال کے سارے مطالبے اور انتقام میرے پیروں تلے روندے جا چکے ہیں قریش کے لوگو! خدانے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا ،اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر ومباہات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لوگو! تمہارے خون ومال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعا ہمیشہ کے لئے حرام کر دی گئیں(تو اب کسی کو بلاوجہ قتل کرنا،کسی کا مال طاقت کے زور سے لوٹنا یا اس کو بر باد کرنے کی کوشش کرنااور کسی کو حقیر وناتواں سمجھ کر اس کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرناجائز نہیں)تم سب اپنے خالق حقیقی کے پاس جائوگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لو گو!ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اپنے غلاموں کا خیال رکھو،ہاں! غلاموں کا خیال رکھو،انہیں وہی کھلائو جو خود کھاتے ہو ،ایسا ہی پہنائو جیسا تم پہنتے ہو۔
عورتوں سے بہتر سلوک کرو،کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں ۔اور وہ خود اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتیں ،چنانچہ ان کے بارے میںخدا کا لحاظ رکھوکہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں ۔لوگو! میری بات سمجھ لو!میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا
دیکھو!تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں (اور ہر ایک پر اس کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے)
قرض قابل ادا ہے ،منگنی پر لی ہوئی چیز واپس کر نی چا ہئے ،تحفہ کا بدلہ دینا چاہئے ،اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے وہ تاوان ادا کرے، کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے ،سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے،خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا ،نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔
خطبہ حجۃ الوداع کے بعض حصے : حضور رحمت عالم ﷺکے رحمت بھرے اقوال اتنے زیادہ ہیں کہ ہم ان سب کو بیان نہیں کر سکتے ۔آقائے کریم ﷺ نے نہ یہ کہ صرف رحمت کا درس دیا بلکہ خود بھی سب سے زیادہ اس کا عملی مظاہرہ فر مایا:چنانچہ جس وقت بیوہ عورتیں دنیاکی سب سے بڑی منحوس چیز سمجھی جاتی تھیں۔ اس وقت آپ ﷺنے اپنی پہلی شادی ایک بیوہ سے کرکے انہیں وہ بلند مرتبہ عطا کیا جس مرتبہ پر دنیا کی کوئی عورت نہیں پہنچ سکتی ،جب بچیوں کو منحوس سمجھ کر زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا اس وقت آپ نے اس کے خلاف آواز بلند کیا اور خود اپنی بچیوں سے ایسی محبت فر مائی جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے۔یتیم و غلام کی اس محبت بھرے انداز میں پرورش فر مائی کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ کمزوروں ،غریبوں اور بے کسوں کی ایسی دستگیری فر مائی جس کی نظیر نہ پہلے دیکھی گئی اور نہ بعد میں دیکھی جائے گی۔اپنی جان کے دشمنوں کے ساتھ وہ رحمت بھرا سلوک فر مایا جو کسی دوسرے کی بس کی بات ہی نہیں ۔اور آقائے کریم ﷺ کے غلاموں نے اس درس رحمت کو ایسا فروغ دیا کہ وہ جہاں بھی گئے وہاں رحمت کے بادل بن کر ہرکشت ناتواں کو رشک گلزار بنادیا ،مصر کی سر زمین پر ہر سال لوگ اپنی قوم کی ایک حسین اورکنواری دو شیزہ کو دریائے نیل کے نام پر بھینٹ چڑ ھا دیتے تھے ،مگر جب اسلام کا ہلالی پرچم مصر کی سر زمین پر لہرایا تو مصطفی جان رحمت کے دیوانے نے اس ظلم عظیم کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم فر مادیا۔آج دنیا بھر میں اگر عورتیں زندہ ذبح نہیں کی جاتی ہیں یا زندہ نہیں جلائی جاتی ہیں یا معاشرہ میں ایک باوقار مرتبہ پر فا ئز ہیں یہ سب مصطفی جان رحمت ہی کا صدقہ ہے۔ آج کمزور سے کمزورتر انسان اپنے حقوق کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے اور عدالتی نظاموں کے ذریعے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی سکت رکھتا ہے تو یہ سب آپ ﷺ ہی کی رحمت کا صدقہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان مل کر آپ کی رحمتوں کا احسان ادا کرنا چاہیں تو قیامت تک ادا نہیں کر سکتے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جانوروں کے لئے رحمت:حضور رحمت عالم ﷺ کا سحاب رحمت جس طرح انسانوں پر بر سا اسی طرح جانوروں پر بھی چنانچہ آپ ﷺکی آ مد سے قبل جانوروں کے ذبح کرنے کے بہت سارے ظالمانہ طریقے رائج تھے نیز ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ لادنا بھی روز مرہ کا معمول تھا آپ ﷺنے ان جانوروں پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم و ستم کا خاتمہ فر مایا۔
چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ: حضور علیہ الصلاۃ والسلام ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے ،وہاں ایک اونٹ زور زور سے چلا رہا تھا جب اس نے آپ کو دیکھا تو ایک دم بلبلانے لگا اور اس کے دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ،آپ نے قریب جا کر اس کے سر اور کنپٹی پر اپنا دست رحمت پھیرا تو وہ تسلی پا کر بالکل خاموش ہوگیا ،پھر آپ ﷺنے لوگوں سے دریافت فر مایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟لوگوں نے ایک انصاری کانام بتایا ،آپ ﷺ نے فورا ان کو بلوا کر فر مایاکہ :اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر تمہارا محکوم بنادیا ہے لہذا تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو ،تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔
(ابوداود،بحوالہ سیرت مصطفی،ص:۶۰۹)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور جان نور ﷺجنگل جارہے تھے کہ یارسول اللہ! کی آواز آئی آپ نے پلٹ کر دیکھا کہ ایک ہرنی بندھی ہوئی ہے اور ایک اعرابی سو رہاہے ،آپ ﷺسے ہرنی نے فریاد کیا کہ مجھے اس اعرابی نے شکار کر لیا ہے ، میرے دو بچے اس پہاڑ پر رورہے ہیں اگر تھوڑی مہلت مل جائے تو ان کو دودھ پلا آئوں ،آپ ﷺ نے ہرنی کو چھوڑ دیا ،اعرابی بیدار ہوا تو کہنے لگا :اگر میرا شکار واپس نہ آیا تو اچھا نہ ہوگا ،گفتگو کے دوران ہی ہر نی اپنے دونوں بچے کے ساتھ واپس آگئی ،اعرابی حیران رہ گیا ،اور آپ کی بے پایاں رحمت کا جلوہ دیکھ کر فورا کلمہ پڑھا ،اور ہرنی کو اس کے بچوں کے ساتھ آزاد کردیا ،ہرنی اپنے بچوں کے ساتھ کلمہ پڑھتی اچھلتی کودتی چلی گئی۔(شفا شریف،جلد:۶،ص:۷۶)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چڑیا کے دو بچے تھے ہم نے اس کو پکڑ لیا ،ان بچوں کی ماں رحمت عالم ﷺکے قدموں پر نثار ہونے لگی اور فر یاد کرنے لگی ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:ان بچوں کو اپنی جگہ پہنچا آئو۔(حجۃ اللہ،ص:۴۶۶)انہیں روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا ہی پیاری بات امام عشق ومحبت سیدنا امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ علیہ نے فر مایا ہے۔ ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فر یاد ۔۔ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد۔۔اسی در پہ شتران ناشاد۔۔گلہ رنج و عنا کرتے ہیں۔
درس رحمت:آقائے کریم ﷺنے ہر جاندار کے ساتھ رحم کرنے کا درس دیا اور بے رحمی کرنے کے نقصانات سے آگاہ فر مایا:
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے گر می کے دنوں میں ایک کتے کو ایک کنویں کے گرد چکر لگاتے دیکھا جس کی پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکلی ہوئی تھی ،اس عورت نے اپنے موزے میں پانی لاکر اس کتے کو پلایا تو اس کی بخشش کردی گئی،دوسری روایت یہ بھی ہے کہ:صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ!کیا ان جانوروں میں بھی ہمارے لئے ثواب ہے؟آپ ﷺ نے فر مایا:ہر جگر والے میں ثواب ہے۔
(صحیح مسلم،کتاب قتل الحیات وغیرھا،باب فضل ساقی البھائم و اطعامھا،حدیث:۲۲۴۴۔۲۲۴۵)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا،اس نے اس بلی کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ،وہ عورت اسی وجہ سے جہنم میں داخل کی گئی،جب اس نے بلی کو باندھا تو اس کو کھلایا نہ پلایا اور نہ اس کو کیڑے مکوڑے کھانے کے لئے آزاد کیا۔
(صحیح مسلم،کتاب قتل الحیات وغیرھا،باب تحریم قتل الھرۃ۔حدیث:۲۲۴۲)
رسول اکرم ﷺ نے فر مایا:جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔(بخاری،حدیث:۵۹۹۷)
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دین کا ہر حکم رحمت ہی رحمت ہے جو نظام عالم کی بقا کا ضامن ہے آج کی اس ظلم سے بھری دنیا کو امن و آشتی کے گہوارے میںاگر کوئی نظام حیات تبدیل کر سکتا ہے تو وہ صرف مصطفی جان رحمت ﷺکا لایا ہوا نظام رحمت ہے۔اے کاش ! دنیا اس حقیقت کو سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔