Pages

Thursday, 16 March 2017

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت
سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جتنے آئمہ اہل بیت حیات تھے، آپ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد بنے۔ خود کو حنفی کہلانے والے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت کو دیکھیں کہ حنفیت میں کتنی مؤدتِ اہل بیت موجود ہے۔
امام ابن ابی حاتم، امام مزی (تہـذیب الکمال)، امام ذہبی، علامہ عسقلانی، امام سیوطی اور دیگر آئمہ نے بیان کیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب پر سب سے عظیم کتاب ’’مناقب امام ابی حنیفہ‘‘ (امام موفق بن احمد المکی) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک روایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:
فَاِنَّ لَکَ عِنْدِی حُرْمَةً کَحُرْمَةِ جَدِّکَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِيْ حَيَاتِهِ عَلٰی اَصْحَابِهِ.
’’آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم واجب تھی‘‘۔
یعنی جو تعظیم و تکریم صحابہ کرام آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا کرتے تھے، میں اسی طرح وہ تعظیم آپ کی کرتا ہوں چونکہ آپ کی حرمت و تعظیم اور محبت اور مؤدت میں مجھے حرمت و تعظیم اور مؤدت و محبتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنظر آتی ہے۔
(المناقب للموفق المکی صفحہ 168)
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو امام محمد جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ امام ابن المکی ’’مناقب ابوحنیفہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ تشریف لائے اور سیدنا امام ابوحنیفہ کو آپ کی آمد کا پتہ چلا تو آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لے کر سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں زیارت و علمی استفادہ کے لئے حاضر ہوئے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی مجلس میں ادب و احترام سے پاؤں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ کسی کا خوف، ہیبت اور کمال درجے کا ادب و احترام طاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کے شاگردوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو سارے اسی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنے بیٹھنے کا طریقِ نشست بدل لیا ہے اور اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں جن کی تم سب اتنی تعظیم و توقیر کررہے ہو کہ جس طرح انہیں میرے سامنے بیٹھتے ہوئے دیکھا تم ساروں نے اپنی ہئیت اور طریقہ بدل لیا؟ انہوں نے کہا: یہ ’’ہمارے استاد ابوحنیفہ ہیں‘‘۔
یہ امام اعظم کی حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ بعد ازاں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علمی و فکری استفادہ کیا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام حسن بن زیاد لولؤی روایت کرتے ہیں:
سَمِعْتُ اَبَا حَنِيْفَهَ وَسُئِلَ مَنْ اَفْقَهَ مَنْ رَايْتَ؟
امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا؟
آپ نے جواب دیا:
مَارَاَيْتُ اَفْقَهَ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمّد الصَّادِق.
’’میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد الصادق سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا‘‘۔۔
علاوہ ازیں سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو درج ذیل آئمہ اہل بیت اطہار کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا:
امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)
امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)
امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ
حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے)
امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے پوتے)
الغرض امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل بیت اطہار کے نو اِمام حیات تھے اور آپ نے ہر ایک کے پاس جاکر زانوئے تلمذ طے کیا۔ آئمہ اطہار اہل بیت میں سے جو امام بھی بنو امیہ یا بنو عباس کی ظالمانہ حکومت یا کسی حکمران کے خلاف خرو ج کرتے، آپ خفیہ طور پر اپنے تلامذہ کے ذریعے بارہ/ بارہ ہزار درہم تک بطور نذرانہ آئمہ اطہار اہل بیت کی خدمت میں بھیجتے۔
آپ نے چیف جسٹس بننے کی حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی پیشکش کو قبول نہ کیا، اس کا بہانہ بناکر آپ کو قید میں ڈال دیا گیا حتی کہ آپ کا جنازہ بھی قید خانے سے نکلا۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے چیف جسٹس بننا قبول نہیں کیا تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ عمر بھر قید کی سزا دے دی جائے اور جنازہ بھی قید خانے سے نکلے؟ دراصل یہ حکمرانوں کا بہانہ تھا کہ ہمارا حکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ سبب یہ تھا کہ حکمران جانتے تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ گھر بیٹھ کر اہل بیت کے ہر شہزادے کی خدمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ محبت و مؤدت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذا ان کو محبت اہل بیت کی سزا دی جائے۔ پس آپ نے محبت اہل بیت میں شہادت پائی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔