حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ دیوبندیت و وہابیت کا رد اعتراضات کا جواب
تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور رد دیوبندیت و وہابیت : مسلہ حاضر و ناظر اور حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃُ اللہ علیہ : آپ فرماتے ہیں حقیقت احمدیہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہر دو عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں ثابت ہے ۔ (فتاویٰ مہریہ صفحہ6)
تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور رد دیوبندیت و وہابیت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کوجو ہوچکا جو ہوگا سب کا علم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو عطائے الٰہی سے وہبی طور پر عالم الغیب کہہ سکتے ہیں ۔ (فتاویٰ مہریہ صفحہ 7 ) دیوبندیوں اور وہابی نجدیوں کے عقائد کا رد فرمایا ہے ۔
علم غیب ،نذر و نیاز اور مسلہ سماع موتیٰ پر تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃُ اللہ علیہ نے ابن وہاب نجدی کا بھر پور رد فرمایا ، نجدیوں کے ہمدرد اور قبلہ تاجدار گولڑہ علیہ الرّحمہ کو بد نام کرنے والے کیا کہتے ہیں ؟
بعض لوگ کہتے ہیں حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃُاللہ علیہ نے دیوبندیوں ، وہابیوں کا رد نہیں ،کیا میں کہتا ہوں پیر صاحب نے ان کے نظریات کے پرخچے اڑا دیئے ہیں پیر صاحب کی مکمل کتب پڑھو اور تاجدار گولڑہ علیہ الرّحمہ کو بد نام مت کرو یہ کس کے رد میں لکھی ہے
تاجدار گولڑہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ رحمۃُ اللہ علیہ نے ابن وہاب نجدی کو گمراہ کُن پیشواؤں کی فہرست میں شمار فرمایا ہے۔(الفتوحات الصّمدیہ پیش لفظ) صلح کُلیو سوچو ؟؟
حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃُاللہ علیہ فرقہ وہابیہ نجدیہ کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس فرقہ کا شیوہ رہا ہے اہل اسلام پر بدعت کے فتوے لگاتے رہے۔(فتاویٰ مہریہ صفحہ 33 ) کیا فرماتے ہیں تاجدار گولڑہ رحمۃ اللہ علیہ کا نام لے صلح کلیت کا گند پھیلانے والے حضرت تاجدار گولڑہ رحمۃ اللہ علیہ نے نجدی وہابی فرقے کا رد فرما کر غلط کام کیا ہے ؟ صلح کلیو کچھ تو خوف خدا کرو ۔ تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہر باطل فرقے کا رد فرمایا ہے ۔
آخری سہارا
اس بحث میں ہمارے مخالفین ( حضرات علماءِ دیوبند) کا ایک آخری سہارا یہ ہے کہ بہت سے اکابر علماءِ کرام و مشائخِ عظام نے علماءِ دیوبند کی تکفیر نہیں کی جیسے سند المحدثین حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب مجددی رام پوری رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ اور قبلۂ عالم حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ اسی طرح بعض دیگر اکابر ِامت کی کوئی تحریر ثبوتِ تکفیر میں پیش نہیں کی جاسکتی ۔
اس کے متعلق گزارش ہے کہ تکفیر نہ کرنے والے حضرات میں بعض حضرات تو وہ ہیں جن کے زمانے میں علماءِ دیوبند کی عباراتِ کفریہ ( جن میں التزامِ کفر متیقّن ہو) (یعنی ایسی عبارت جس میں کفر پایا جائے اور اس کے قائل کواس کفر پر اطلاع بھی ہو) موجود ہی نہ تھیں جیسے مولانا ارشاد حسین صاحب رام پوری رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ ۔ (جن کا انتقال۱۳۱۲ھمیں ہوچکا تھا جبکہ کفریہ عبارات پر مبنی کتابوں میں سے بعض تو بعد میں لکھی گئیں یابعض پہلے لکھی جا چکی تھیں مگر عام نہ ہونے کی بنا پر ان علماء کی نظر سے نہیں گزری) ایسی صورت میں تکفیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بعض وہ حضرات ہیں جن کے زمانے میں اگرچہ وہ عبارات شائع ہوچکی تھیں مگر ان کی نظر سے نہیں گزریں ، اس لیے انہوں نے تکفیر نہیں فرمائی۔
ہمارے مخالفین میں سے آج تک کوئی شخص اس امر کا ثبوت پیش نہیں کرسکا کہ فلاں مُسَلّم بَیْنَ الْفَرِیْقَیْن بزرگ(وہ بزرگ جنہیں دونوں فریق تسلیم کرتے ہوں) کے سامنے علماءِ دیوبند کی عبارات مُتَنَازَعَۃ فِیْہَا (جن عبارات کی بنا پر جھگڑا ہے) پیش کی گئیں اور انہوں نے ان کو صحیح قرار دیا یا تکفیر سے سکوت فرمایا۔ علاوہ ازیں یہ کہ جن اکابرِ امت مُسَلَّم بَیْنَ الْفَرِیْقَیْن کی عدم ِتکفیر (کفر کا فتویٰ نہ لگانے کو)کو اپنی براء ت کی دلیل قرار دیا جاسکتا ہے، ممکن ہے کہ انہوں نے تکفیر فرمائی ہو اور وہ منقول(زبانی یا کتابی صورت میں) نہ ہوئی ہو کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی کہی ہوئی ہر بات منقول ہوجائے لہذا تکفیر کے باوجود عدمِ نقل کے احتمال نے اس آخری سہارے کو بھی ختم کردیا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْد ۔
ایک تازہ شبہ کا جواب
ایک مہربان نے تازہ شبہ یہ پیش کیا ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے ہمیں کتنی رکعتوں کا ثواب ملے گا۔ ہم خواہ مخواہ کسی کو کافر کیوں کہیں ؟ توہین آمیز عبارات لکھنے والے مر گئے۔ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حدیث شریف میں وارد ہے’’ اُذْکُرُوْا مَوْتَا کُمْ بِالْخَیْرِ‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،۶؍۴۰۱:تحت الحدیث:۳۲۵۲ ) تم اپنے مردوں کو خیر کے ساتھ یاد کرو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مرتے وقت انہوں نے توبہ کرلی ہو۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘ (بخاری،کتاب القدر،باب العمل بالخواتیم، ۴؍ ۲۷۴،الحدیث:۶۶۰۷) عمل کا دارومدار خاتمہ پر ہے ۔ ہمیں کیا معلوم کہ ان کا خاتمہ کیسا ہوا؟ شاید ایمان پر ان کی موت واقع ہوئی ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کفر و اسلام میں امتیاز کرنا ضروریاتِ دین سے ہے۔ آپ کسی کافر کو عمر بھر کافر نہ کہیں مگر جب اس کا کفر سامنے آجائے تو بربنائے کفر اسے کافر نہ ماننا خود کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ بے شک اپنے مردوں کو خیر سے یاد کرنا چاہیے مگر توہین کرنے والوں کو مومن اپنا نہیں سمجھتا۔ نہ وہ واقع میں اپنے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے مضمونِ حدیث کو ان سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ خاتمہ پر اعمال کا دارو مدار ہے مگر یاد رکھیے !دمِ آخر کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا مآل بھی اس کی طرف مُفَوَّض ہے۔(قبرمیں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا، وہ بھی رب تعالیٰ جانتا ہے) احکا مِ شرع ہمیشہ ظاہر پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے جب کسی شخص نے معاذ اللہ علانیہ طور پر التزامِ کفر کرلیا تو وہ حکمِ شرعی کی رو سے قطعاً کافر ہے تاوقتیکہ توبہ نہ کرے۔ اگر کوئی مسلمان ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا تو کفر و اسلام کو معاذ اللہ یکساں سمجھنا کفرِ قطعی ہے لہذا کافر کو کافر نہ ماننے والا یقینا کافر ہے(الفتاوی الرضویۃ، ۱۴؍۲۶۵) اور اگر بفرضِ محال ہم یہ تسلیم کرلیں کہ حضور اقدسصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کرنے والوں کو کافر نہ کہنا چاہیے اس لیے کہ شاید انہوں نے توبہ کرلی ہو اور ان کا خاتمہ بِالْخَیْر ہوگیا ہو تو اسی دلیل سے مرزائیوں کو کافر کہنے سے بھی ہمیں زبان روکنی پڑے گی کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین سب کے لیے یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید ان کا خاتمہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان پر مقدر فرمادیا ہو۔ تو ہم انہیں کس طرح کافر کہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ مرزائیوں کے بارے میں یہ احتمال کار آمد نہیں تو گستاخان ِ نبوت کے حق میں کیونکر مفید ہوسکتا ہے۔(لہذا شرع کے اصول پر عمل کرتے ہوئے گستاخی کرنے والوں پر حکمِ کفر جاری ہوگا)
ایک ضروری تنبیہ
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ توہین آمیز عبارات پر تو سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور بسا اوقات مجبور ہوکر اقرار کرلیتے ہیں کہ واقعی ان عبارات میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی توہین ہے لیکن جب ان عبارات کے قائلین کا سوال سامنے آتا ہے تو ساکت اور متأمل(اورا نہیں کافر کہنے میں شش و پنج کا شکار ہوجاتے ہیں) ہوجاتے ہیں اور اپنی استادی شاگردی ، پیری مریدی یا رشتہ داری و دیگر تعلقات دنیوی خصوصاً کاروباری، تجارتی ، نفع و نقصان کے پیش نظر ان کو چھوڑنا، ان کے کفر کا انکارکرنا (یعنی انکے کفر کو منکر و برا جاننا)ہر گز گوارا نہیں کرتے۔ ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ قرآن مجید کی حسبِ ذیل آیتوں کو ٹھنڈے دل سے ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ فرماتاہے : {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاء َکُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَاء َ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْإِیمَانِ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَأُولَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ } (پ ۱۰،سورۃ التوبۃ ،الآیۃ ۲۳)
ترجمہ :(اے ایمان والو ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور جو تم میں سے ایسے باپ بھائیوں کے ساتھ دوستی کا برتاؤ رکھے گا تو یہی لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک ظالم ہیں )
{قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ} (پ ۱۰،سورۃ التوبۃ ،الآیۃ ۲۴)
ترجمہ: اے نبی (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)! آپ مسلمانوں سے فرمادیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے مندا (سست پڑ جانے)پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہو اور مکانات جن میں رہنے کو تم پسند کرتے ہو۔ اگر یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے تم کو زیادہ عزیز ہوں تو ذرا صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے اور اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں فرماتا)
ان دونوں آیتوں کا مطلب واضح ہے کہ عقیدے اور ایمان کے معاملے میں اور نیکی کے کاموں میں بسا اوقات خویش و اقارب(رشتہ دار ) ،کنبہ اور برادری، محبت اور دوستی کے تعلقات حائل ہوجایا کرتے ہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کو ایمان سے زیادہ کفر عزیز ہے ،ایک مومن انہیں کس طرح عزیز رکھ سکتا ہے ۔ مسلمان کی شان نہیں کہ ایسے لوگوں سے رفاقت اور دوستی کا دم بھرے ۔خدا اور رسول کے دشمنوں سے تعلقات استوار کرنا یقینا گنہگار بننا اور اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاءِ کلمۃ الحق (کلمۂ حق کو بلند کرنے سے) سے اگر یہ خیال مانع ہو کہ کنبہ اور برادری چھوٹ جائے گی ، استادی شاگردی یا دنیاوی تعلقات میں خلل واقع ہوگا، اموال تلف ہوں گے یا تجارت میں نقصا ن ہوگا،راحت اور آرام کے مکانات سے نکل کر بے آرام ہونا پڑے گا تو پھر ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے عذاب کے حکم کا منتظر رہنا چاہیے ۔ جو اس نفس پرستی ،دنیا طلبی اور تن آسانی کی وجہ سے ان پر آنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس واضح اور روشن ارشاد کو سننے کے بعد کوئی مومن کسی دشمنِ رسول سے ایک آن کے لیے بھی اپنا تعلق برقرار نہیں رکھ سکتا نہ اس کے دل میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی توہین کرنے والوں کے کافر ہونے کے متعلق کوئی شک باقی رہ سکتا ہے۔
حرفِ آخر
دیوبندی مبلغین و مناظرین اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ اور ان کے ہم خیال علماء کی بعض عبارات بزعمِ خود (یعنی ان عبارات میں گستاخی کا شائبہ تک نہیں لیکن مخالفین بغض و عناد یا کم عقلی کی بنا پر انہیں گستاخانہ عبارات قرار دیتے ہیں )قابلِ اعتراض قرار دے کر پیش کیا کرتے ہیں۔
اس کے متعلق سرِدست(فی الحال)اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ اگر فی الواقع (حقیقت میں)علماء ِاہل سنت کی کتابوں میں کوئی توہین آمیز عبارت ہوتی تو علماءِ دیوبند پر فرض تھا کہ وہ ان علماء کی تکفیر کرتے جیسا کہ علماءِ اہلِ سنت نے علماءِ دیوبند کی عباراتِ کفریہ کی وجہ سے تکفیر فرمائی ۔ لیکن امر واقع (حقیقت یہ ہے ) یہ ہے کہ دیوبندیوں کا کوئی عالم آج تک اعلیٰ حضرت یا ان کے ہم خیال علماء کی کسی عبارت کی وجہ سے تکفیر نہ کرسکا ،نہ کسی شرعی قباحت کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دے سکا۔
دیکھئے دیوبندیوں کی کتاب’’ قِصَصُ الْاَکَابِر، ملفوظات مولوی اشرف علی صاحب تھانوی، شائع کردہ کتب خانہ اشرفیہ دہلی، صفحہ ۹۹،۱۰۰ ‘‘پر ہے۔
’’ایک شخص نے پوچھا کہ ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ فرمایا( حضرت حکیم الامت مدظلہ العالی نے):ہاں۔ہم ان کو کافر نہیں کہتے اس کے چند سطر بعد مرقوم ہے۔
’’ ہم بریلی والوں کو اہلِ ہوا (اہلِ بدعت)کہتے ہیں۔اہلِ ہوا کافر نہیں۔‘‘
اس سلسلے میں مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا ایک اور مزیدارملفوظ ملاحظہ فرمائیے ۔ (الافاضات الیومیہ، جلد پنجم، مطبوعہ اشرف المطابع تھانہ بھون، صفحہ ۲۲۰ پر ملفوظ نمبر ۲۲۵)میں مرقوم ہے۔
’’ایک سلسلہء گفتگو میں فرمایا کہ دیوبند کا بڑا جلسہ ہوا تھا تو اس میں ایک رئیس صاحب نے کوشش کی تھی کہ دیوبندیوں میں اور بریلویوں میں صلح ہوجائے ۔ میں نے کہا !ہماری طرف سے کوئی جنگ نہیں۔ وہ نماز پڑھاتے ہیں ، ہم پڑھ لیتے ہیں۔ ہم پڑھاتے ہیں وہ نہیں پڑھتے تو ان کو آمادہ کرو۔( مزاحاً فرمایا کہ ان سے کہو کہ آ،مادہ ! نر آگیا) ہم سے کیا کہتے ہو۔
اس عبارت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ علماءِ اہلِ سنت ( جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے) دیوبندیوں کے نزدیک مسلمان ہیں اور ان کا دامن ہر قسم کے کفر و شرک سے پاک ہے۔ حتی کہ دیوبندیوں کی نمازان کے پیچھے جائز ہے۔ عبارت منقولہ بالا (یعنی تھانوی صاحب کی وہ عبارت جو ابھی نقل کی گئی) سے جہاں اصل مسئلہ ثابت ہوا وہاں علماءِ دیوبند کے مجددِ اعظم حکیم الامت مولوی اشرف علی صاحب (متوفیٰ ۱۳۶۲ھ)کی تہذیب اور مخصوص ذہنیت کا نقشہ بھی سامنے آگیا، جس کا آئینہ دار مولوی اشرف صاحب کے ملفوظ شریف کا یہ جملہ ہے کہ ۔
ان (بریلویوں ) سے کہو آ، مادہ ، نر آگیا۔ دیوبندی حضرات کو چاہیے کہ اس جملہ کو بار بار پڑھیں اور اپنے عارفِ ملت و حکیم کے ذوقِ حکمت و معرفت سے کیف اندوز ہو کر اس کی داد دیں۔
مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے ملفوظ منقول الصدر (تھانوی صاحب کا وہ ملفوظ جو پہلے ذکر کیا گیا یعنی’’ ہم بریلی والوں کو اہلِ ہوا کہتے ہیں۔اہلِ ہوا کافر نہیں۔)سے یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ بعض اعمال و عقائدمُخْتَلَف فِیْہَا (ایسے عقائد جن میں سنیوں اور دیوبندیوں کا اختلاف ہے) کی بناء پر مفتیانِ دیوبند کا اہلِ سنت ( بریلویوں ) کو کافر و مشرک قرار دینا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز یا مکروہ کہنا قطعاً غلط، باطل محض اور بلا دلیل ہے۔صرف بغض و عناد اور تعصب کی وجہ سے انہیں کافر و مشرک کہا جاتا ہے ورنہ در حقیقت اہلِسنت ( بریلوی) حضرات کے عقائد و اعمال میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جس کی بناء پر انہیں کافر و مشرک قرار دیا جاسکے یا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ کہا جاسکے۔
ہمیں امید ہے کہ یہ چند امور جو ہم نے پہلے بیان کیئے ہیں ہمارے محترم قارئین کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔