Pages

Sunday, 12 November 2017

مزار اور مندر میں فرق کیجیئے

مزار اور مندر میں فرق کیجیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک صاحب نے ان بکس میں میسج کر کے پوچھا ، مسلمان کے مزاراور ہندو کے مندر میں کیا فرق ہے ؟

جواب : محترم قارئین ایسی پوسٹیں و کمنٹس کئی جگہ آپ نے بھی پڑھے ہونگے مگر افسوس کہ مسلمان اتنی شناخت بھی کھو چکا ہے، مسلمان کا مزار من اللہ ہے اور ہندو کا مندر من دون اللہ ہے۔ ہندو کا مندر شرک کا گڑھ ہے تو مسلمان کا مزار توحید کا مرکز ہے یہ صاحب مزار ہستیاں اسلام کی بقا اور ایمان کی حفاظت کی ضامن ہیں ، پوری دنیا میں دین کی سچی تبلیغ انہی صاحب مزارہستیوں کے ذریعے جاری و ساری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشادات ان صاحب مزار ہستیوں کو موصول ہوتے ہیں اور یہ صاحب مزار اس علاقے میں موجود ولی اللہ کے توسط سے وہ فیض ، عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں دین کی تبلیغ کے مشن میں یہ مزار پوری دنیا میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں،کوئی ولی اللہ، جس کے لئے اللہ چاہے، براہِ راست بھی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایات وصول کرتا ہے۔

جن کی نظروں کے سامنے اندھیرا ہے ان کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ چادریں پیش کی جارہیں ہیں ، پھول پیش ہو رہے ہیں، لنگر تقسیم ہو رہے ہیں، ڈھول بج رہے ہیں، اس سے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا ، حالاں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کے قبیلہ کے مقابلہ میں اللہ کا قبیلہ ہیں، جس طرح شیطانی مخلوق کا شیطان سے مضبوط رابطہ ہے اسی طرح ان ہستیوں کا اللہ اور رسول سے مکمل اور مضبوط رابطہ ہے جس طرح شیطانی مخلوق ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتی ہے اسی طرح یہ صاحب مزار دین کی سچی تبلیغ میں مصروف اولیائے کرام کی مکمل پشت پناہی فرماتے ہیں۔

آئیں اب ہم من اللہ اور من دون اللہ کے فرق کو قرآنی آیات سے دیکھتے ہیں۔

من دون اللہ پر شیاطین جن مسلط ہو تے ہیں
وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاِّءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَھُمْ وَ خَرَقُوْا لَہ‘ بَنِیْنَ وَ بَنٰت ؤِ بِغَیْرِ عِلْمٍ چ سُبْحٰنَہ‘ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ

من اللہ جنوں پر مسلط ہوتے ہیں
وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ

من دون اللہ پکارنے والے کی آواز سے غافل ہوتے ہیں
قُلْ اَرَءَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ

من اللہ چیونٹی تک کی آواز سن لیتے ہیں
حَتّٰی اِِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یٰٓاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ ڑَلا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُ ہٗ ڈ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ

ہو سکتا ہے کہ کوئی صاحب یہ سوچیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سننے کا تعلق تو ظاہری زندگی سے تھا، تو عرض ہے کہ من اللہ کی برزخی زندگی ان کی ظاہری زندگی سے شاندار ہوتی ہے۔

سورۃ حم السجدہ میں ارشاد ہوتا ہے۔اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلئکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (۳۰)) نَحْنُ اَوْلِیٍّؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِٹ وَلَکُمْ فِیْہَامَا تَشْتَہِئْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْن (۳۱) نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ ۔
قرآن مجید فرماتا ہے:اہل استقامت کو فرشتے خوش خبری دیتے ہیں،کہ ان کے لئے کوئی خوف اور غم نہیں ہے۔

کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری اولیاء اللہ کو تین طریقے سے ملتی ہے۔

نمبر۱۔ صاحب فضل اہل قبور اسے کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں۔جیسا کہ سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۷۰ میں ہے۔

نمبر۲۔ فرشتے اسے کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے۔

نمبر۳۔ سوہنارب خود بھی اپنے دوست سے ہم کلام ہوتا ہے جیسا کہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر ۲۷ میں ہے، وہ دوست ہی کیا جو اپنے دوست سے بات نہ کرے دکھ ،سکھ میں اس کے ساتھ نہ ہو۔دوست تو دوست کے راستے کے وہ کانٹے بھی ہٹا دیتا ہے جو اس کے دوست کو نظر نہیں آ رہے ہوتے، سوہنا رب اپنے دوست کی وہ دعائیں بھی پوری فرمادیتا ہے جو اس کے دوست نے مانگی نہیں ہوتیں۔

قرآن مجید فرماتا ہے، ان کی قبروں پر بھی فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔

اولیاء اللہ کی زندگی میں بھی فرشتے ان کے دوست اور ساتھی ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ کے مزارات پربھی فرشتوں کا نزول ہوتا ہے،اور جو وہ چاہیں وہ تمنا پوری کرتے ہیں اور یہ غفورالرحیم کی دوست نوازی کاتقاضہ ہے۔

من دون اللہ ، اللہ کی عبادت سے وکتے ہیں اور جہنم کی طرف بلاتے ہیں،شیطان اپنے گروہ کو جہنم کی دعوت دیتا ہے۔
سورۃ فاطر میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّاچ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْر ۔

من اللہ یا حزب اللہ برائی سے روکتے ہیں اور نیکی کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ کی رحمت کا حقدار بنا دیتے ہیں۔
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ چ اُولئکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ چ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔

من دون اللہ کی دوستی اللہ کی ناراضگی ہے
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہ اَوْلِیَاِّءَ چ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔

من اللہ کی دوستی اللہ کی خواہش ہے۔
وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً چ وَ اللّٰہُ خَبِیْرئِ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔

من دون اللہ سے بیزار ہونا صاحبِ ایمان کی فطرت ہے
فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ صلے زعَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَاِّءِ رَبِّیْ شَقِیًّا ۔

من اللہ کی دوستی صاحبِ ایمان کی فطرت ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔(اللہ تعالیٰ سمجھ عطاء فرمائے آمین ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔