Pages

Friday, 3 November 2017

شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے تعالی کا دیدار کیا

شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے تعالی کا دیدار کیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے دیدار پرانوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے‘ اس کا ذکر قرآن کریم کی آیات مبارکہ میں موجود ہے چنانچہ واقعہ معراج کے ضمن میں ارشاد خداوندی ہے: مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی۔ ترجمہ:آپ نے جو مشاہدہ کیا دل نے اُسے نہیں جھٹلایا۔ (سورۃ النجم۔11) نیز ارشاد الہی ہے: أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَی۔ ترجمہ :کیا تم ان سے بحث کرتے ہواُس پرجووہ مشاہدہ فرماتے ہیں۔ (سورۃ النجم۔12) وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً أُخْرَی۔ ترجمہ:اور یقیناً آپ نے اُس جلوہ کا دومرتبہ دیدار کیا ۔ (سورۃ النجم۔13) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی۔ ترجمہ:نہ نگاہ ادھر اُدھر متوجہ ہوئی اور نہ جلوۂ حق سے متجاوز ہوئی ۔ (سورۃ النجم۔17) یعنی آپ کی نظرسوائے جمال محبوب کے کسی پرنہ پڑی ۔ لَقَدْ رَاٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی۔ ترجمہ:بیشک آپ نے اپنے رب کی نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی (جلوۂ حق) کامشاہدہ کیا۔ (سورۃ النجم۔18) امام بخاری کے دادا استاذ حضرت عبدالرزاق صنعانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 211؁ھ) نے اپنی تفسیر میں رقم فرمایاہے: کان الحسن یحلف باللہ ثلاثۃ لقد رای محمد ربہ۔ ترجمہ: حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ تین باراللہ تعالی کی قسم ذکرکرکے فرمایاکر تے تھے کہ یقینا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کا دیدار کیا۔ (تفسیرالقران لعبد الرزاق، حدیث نمبر2940) نیز اسی طرح کی تفسیر‘ ائمۂ تفسیر امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 327 ھ) ابومحمد الحسین بن مسعو د بغوی (متوفی 510ھ) علامہ جمال الدین ابن الجوزی (متوفی 597ھ) امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (وصال 606 ھ) علامہ عبدالعزیز بن عبدالسلام دمشقی(متوفی660ھ) امام ابوعبداللہ محمدبن احمد قرطبی(متوفی 671ھ) امام علاء الدین خازن رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 741 ھ) ابوزید عبدالرحمن ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 876ھ) حضرت سلیمان الجمل رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1204ھ) علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ (وصال 1241ھ) امام سیوطی (وصال 911ھ) اپنی کتب تفسیر میں لکھی ہیں۔ سورۃ النجم کی آیت13کی تفسیر کے تحت روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سدرۃ المنتھی کے پاس جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔ لیکن آپ کا سفر وہیں منتہی نہیں ہوا‘ آپ سدرہ سے آگے تشریف لے گئے‘ ماورائِ عرش پہنچے‘ اللہ تعالی کے قرب سے مالامال ہوئے اور اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدارفرمایا۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کتب صحاح وسنن‘ معاجم ومسانید میں اس سے متعلق متعدد روایتیں موجود ہیں‘ چنانچہ صحیح بخاری‘ مستخرج أبی عوانۃ اور جامع الأصول من أحادیث الرسول لابن الاثیر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے: وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَلَّی حَتَّی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی۔ ترجمہ: اور اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب عطا کیا ،مزیداور قرب عطا کیا ‘یہاں تک کہ آپ کے اور اُس جلوہ کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے ۔ (صحیح بخاری شریف، کتاب التوحید،باب قَوْلِ اللہِ ( وَکَلَّمَ اللَّہُ مُوسَی تَکْلِیمًا). حدیث نمبر:7517۔ مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان،مبتدأ أبواب فی الرد علی الجہمیۃ وبیان أن الجنۃ مخلوقۃ، حدیث نمبر:270۔ جامع الأصول من أحادیث الرسول لابن الاثیر،کتاب النبوۃ، أحکام تخص ذاتہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسمہ ونسبہ، حدیث نمبر:8867) صحیح مسلم‘صحیح ابن حبان ‘مسندابویعلی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر‘مجمع الزوائد ‘کنزل العمال‘مستخرج ابوعوانہ میں حدیث پاک ہے: عن عبداللہ بن شقیق قال قلت لابی ذر لو رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لسالتہ فقال عن ای شیء کنت تسالہ قال کنت اسالہ ھل رایت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رایت نورا۔ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا! اگر مجھے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو ضرورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتا، انہوں نے فرمایا تم کس چیز سے متعلق دریافت کرتے؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کا دیدارکیا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تھا‘توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے نورِحق کودیکھاہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب فِی قَوْلِہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ نُورٌ أَنَّی أَرَاہ.وَفِی قَوْلِہِ رَأَیْتُ نُورًا.حدیث نمبر:462۔مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان، حدیث نمبر:287۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر:58۔جامع الأحادیث،حرف الراء ،حدیث نمبر:12640۔جمع الجوامع أو الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الراء ، حدیث نمبر:12788۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر:13840۔مسند أبی یعلی، حدیث نمبر:7163۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج، حدیث نمبر:31864) صحیح مسلم‘مسنداحمد‘صحیح ابن حبان ‘مسندابویعلی ‘معجم اوسط طبرانی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر ‘کنزل العمال‘مستخرج ابوعوانہ میں حدیث پاک ہے : عن ابی ذر سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہل رأیت ربک؟ قال نور اِنِّی اَرَاہ۔ ترجمہ: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا !کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا؟ فرمایا: وہ نور ہے ‘بیشک میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب نورانی اراہ ،حدیث نمبر:461،مسند احمد، مسند ابی بکر حدیث نمبر:21351!21429) اس حدیث شریف میں بھی صراحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالی کا دیدار کیا‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیاآپ نے رب کا دیدار کیا ؟ جواباًارشاد فرمایا: نُورَانِیُُّ اَرَاہُ ترجمہ :وہ ذات نور ہے ‘ میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں۔ (2) فقال نورا اَنّٰی اَرَاہ ۔ترجمہ : میں نے جس شان سے دیکھاوہ نورہی نورہے ۔ (مسنداحمد ،حدیث نمبر:22148۔ طبرانی معجم اوسط،حدیث نمبر:8300،مسنداحمد ،حدیث نمبر:21537۔جامع الأحادیث للسیوطی،حرف الراء ،حدیث نمبر:12640۔ صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ، حدیث نمبر:255)أما قولہ صلی اللہ علیہ و سلم نور أنی أراہ فہو بتنوین نور وبفتح الہمزۃ فی أنی وتشدید النون وفتحہا وأراہ بفتح الہمزۃ ہکذا رواہ جمیع الرواۃ فی جمیع الاصول والروایات ۔ ۔ ۔ (رأیت نورا ) معناہ رأیت النور فحسب ولم أر غیرہ قال وروی نورانی أراہ بفتح الراء وکسر النون وتشدید الیاء ویحتمل أن یکون معناہ راجعا إلی ما قلناہ أی خالق النور المانع من رؤیتہ فیکون من صفات الافعال ۔ (شرح صحیح مسلم‘ کتاب الایمان)

روایت کا جواب : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ جو شخص یہ بیان کرے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رب کو دیکھا ہے وہ جھوٹاہے ۔

جواب : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت من حدثک أن محمدا صلی اللہ علیہ و سلم رأی ربہ فقد کذب وہو یقول ( لا تدرکہ الأبصار ) ترجمہ :مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکہ الابصار۔ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا،حدیث نمبر:7380 ( اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔ جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رای محمد ربہ قلت الیس اللہ یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار قال و یحک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ و قد راٰی محمد ربہ مرتین ۔ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767) قال ابن عباس قد راہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا: یقینا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیا ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر:3202)۔ مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں:عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ربی تبارک و تعالیٰ ۔ ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کادیدارکیا ۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر:2449-2502)

دنیا میں ظاہری آنکھوں سے رب تعالی کا دیدار کرنا، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصیت ہے- حضرت موسی علیہ السلام نے ظاہری طور پر اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کی تجلی خاص کا مشاہدہ کیا،جیساکہ سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالی ہے: وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِيقَاتِنَا وَکَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرْ اِلَيکَ قَالَ لَنۡ تَرٰينِیۡ وَلٰکِنِ انۡظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰينِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَيکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ- ترجمہ: اور جب موسی علیہ السلام ہمارے مقرر کردہ وقت پر حاضر ہوئے اور ان کے رب نے ان سے کلام فرمایا، انہوں نے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، ارشاد فرمایا: تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، مگر پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو تم عنقریب مجھے دیکھ لو گے- پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی، اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہوکر گرپڑے، پھر جب افاقہ ہوا تو عرض کئے: تیری ذات پاک ہے میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں- (سورۃ الاعراف- 143) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔