عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رافضی شیعوں کا اعتراض : عمار بن یاسر (رضی اللہ تعالی عنہ) کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا رافضی شیعوں کا اعتراض معاویہ اور اس کے ساتھی جہنمی و باغی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےعکرمہ اور علی بن عبداللہ سے فرمایا کہ تم دونوں ابوسعید خدری کے پاس جاؤ اور ان سے حدیث کا سماع کرو پس ہم دونوں انکی خدمت میں حاضر ہوئے جب کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ باغ کو پانی دے رہے تھے جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو ہمارے پاس تشریف لے آئے اور اختیار کی حالت میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جب مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی تو ہم ایک ایک اینٹ اٹھا کر لاتے تھے لیکن عمار ؓ دو اینٹ لاتے تھے جب نبی کریم ان کے پاس سے گزرے تو ان کے سر کا غبار جھاڑتے ہوئے فرمایا عمارؓ کی اس حالت پر افسوس ہے کہ انکو باغیوں کا ایک گروہ قتل کرے گا یہ انہیں اللہ کی طرف بلائیں گے اور وہ ان کو جہنم کی طرف ۔
نتیجہ روایت : بہت ہی واضح الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت عمار ؓ کے قاتلوں کی پہچان اور حقیقت بتا دی ہے کہ جو ان کو قتل کریں گے وہ باغی بھی ہوں گے اور جہنمی بھی۔ اب بخاری کی یہ روایت پڑھنے کے بعد صاحبان نظر انصاف سے تاریخی کتابیں پڑھ کر دیکھ لیں کہ حضرت عمار ؓ کو قتل کرنے والے کون تھے؟ اس میں کوئی تاریخی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عمار ؓ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جہاد کر رہے تھے ان کا حضرت علی کی طرف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حق مولا علی کی طرف تھا دوسری طرف عمار ؓ نے جن سے جہاد کیا وہ کوئی اور نہیں بلکہ معاویہ ابن ابو سفیان اور اس کے ساتھی تھے بخاری پر یقین کرنے والے کم سے کم معاویہ کا جہنمی ہونا تسلیم کریں یا بخاری کو جھوٹا کہیں ۔
جواب : رافضی شیعہ حضرات اکثر حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی اور جہنمی ٹھہرے۔
اس حدیث میں جس باغی گروہ کی بات کی گئی ہے وہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ تعالی عنہ) کو قتل کیا اس سے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) بالکل مراد نہیں اور نہ ان کا نام موجود ہے اسی طرح کے خارجی لوگ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں بھی موجود تھے جب ایک شخص حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو خوشخبری ہو میں نے حضرت زبیر (رضی اللہ تعالی عنہ) (جو حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں موجود تھے) کو قتل کر دیا ہے تو اس کے جواب میں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے کہا میں تجھے جہنمی ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں کیوں کہ حضرت زبیر (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تو حدیث رسول تھی کہ جو ان کو قتل کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ اب جس طرح حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) پر کوئی الزام نہیں جہنمی ہونے کا (کیوں کہ وہ شخص حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں سے تھا) اسی طرح حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا۔
حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ : وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه ۔ (کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج 3 - الصفحة 540)
ترجمہ : حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس گئے اور فرمایا :آپ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلان عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا۔
اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کو محض خلافت سے کوئی غرض نہیں تھی ان کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مکتوب میں بھی موجود ہے۔
وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان ۔ (کتاب نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - مکتوب 58 - الصفحة 448)
ترجمہ : ہمارے معاملے کی ابتداء یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب کہ بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا۔
دوسری بات یہ کہ فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ الفاظ کہ امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) والے گروہ کے ایمان اور مسلمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کر کے امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) نے اس کی تائید مزید فرما دی۔
یہ حدیث شیعہ کتاب كشف الغمة میں بھی موجود ہے : روى عن أبي بكرة قال بينما رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب إذ صعد إليه الحسن فضمه إليه وقال إن ابني هذا سيد وان الله عله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظمتين ۔
(کتاب كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج 2 - الصفحة 320)
ترجمہ : ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے دوران یکا یک امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) منبر پر چڑھ گئے تو آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور الله اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا
تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی ٹھہرے تو پھر امام حسن و امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) سے نہ صرف بیعت کی بلکہ انہیں مسلمانوں کا امیر بھی بنا دیا کیا امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیا یہ حدیث امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) کو معلوم نہ تھی جو ان کی بیعت کرلی اور کیا اس حدیث کا مفہوم آج کل کے شیعہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ)؟ امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اور امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی بیعت حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر دلائل اور بھی ہیں لیکن اختصار کے طور پر ایک حوالہ رجال کشی کا دے دیتے ہیں
امام جعفر صادق (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو : وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام ۔
(کتاب اختيار معرفة الرجال (رجال الكشي) - الشيخ الطوسي - ج 2 - الصفحة 104)
ترجمہ : ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اٹھیئے اور بیعت کیجیئے وہ اٹھے اور بیعت کی پھر امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کو کہا آپ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو اس نے امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) میرے امام ہیں۔
چوتھی بات یہ کہ جس کو خود حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی اور منافق نہ کہیں انہیں آج کل کہ شیعہ کس منہ سے کہتے ہیں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے ۔
شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے
جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه
إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق ۔ (کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 93)
ترجمہ : امام جعفر عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدِمقابل (حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) اور ان کی لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لیئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا ۔
جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا ۔ (کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 94) ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی.(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔