(حصّہ دوم) حضور ﷺ کے والدین رضی اللہ عنہما کو جہنمی کہنے والوں کو جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ.
’’حالاں کہ عزّت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے مگر منافقین (اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں‘‘۔
(الْمُنَافِقُوْن، 63 : 8)
اس آیت کریمہ میں عزت و اکرام کا ’’حصر‘‘، اللہ تعالیٰ نے مومنین میں فرمایا۔ کافر چاہے جتنی اونچی قوم کا کیوں نہ ہو وہ ذلیل ولئیم ٹھہرا۔ نبی کا کسی ذلیل ولئیم کے پشت اور نسب سے ہونا کوئی مدح نہیں حالانکہ اس آیت کریمہ کو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام مدح میں نازل فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد اشرف تھے اور کافر و مشرک ہرگز عزت و شرف والے نہیں ہوسکتے۔ مومن موحد ہی اشرف و اکرم ہوسکتا ہے۔
کسی ذلیل و رذیل شخص کا نسب میں فخر کرنا عقلاً اور عرفاً باطل ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل کریمہ کے بیان میں رجز اور مدح میں متعدد دفعہ اپنے آبائے کرام و امہات طیبات کا ذکر فرمایا۔ جنگ حنین میں جب کچھ دیر کے لئے کفار نے غلبہ پایا اور چند لوگ پناہ رسالت میں باقی رہے تو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جلالیت طاری ہوئی اور فرمایا:انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب.’’میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں‘‘۔(صحيح بخاری باب الرکوب علی الدآبة)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رجز پڑھتے ہوئے سواری سے نزول فرمایا۔ دست مبارک میں ایک مٹھی خاک لے کر کافروں کی طرف پھینکی۔ وہ خاک تمام کافروں کی آنکھ میں پہنچی اور سب کے منہ پھر گئے۔ بعض روایات میں رجز کا آخر یہ ہے کہ:انا ابن العواتک من بنی سليم.’’میں بنی سلیم سے ان چند خواتین کا بیٹا ہوں جن کا نام عاتکہ تھا‘‘۔(الفردوسی بماثور الخطاب، ج : 1، رقم : 114)
بعض علماء کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدات میں 9 بیبیوں کا نام عاتکہ تھا اور بعض کے نزدیک 12 خواتین کا نام عاتکہ تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا نسب نامہ اپنے فضائل کریمہ میں 21 پشت تک بیان فرمایا کہ میں نسب میں سب سے افضل اور باپ میں سب سے افضل ہوں۔ کسی مشرک یا کافر باپ دادا پر فخر کرنا جب نہ تو عقلاً جائز ہے اور نہ ہی عرفاً تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ معاذ اللہ آپ مشرک یا کافر باپ دادا کے نسب پر فخر فرمائیں پس بحکم نصوص ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات مسلمین و مسلمات تھے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ.’’اے نوح! بے شک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہ تھے‘‘۔
(هُوْد، 11 : 46)
آیۃ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومن و کافر کا نسب قطع فرما دیا۔ اور حدیث میں ہے:نحن بنو نضر بن کنانه لا منتقی من ابيينا.’’ہم نضر بن کنانہ کے بیٹے ہیں، ہم اپنے باپ سے اپنا نسب جدا نہیں کرتے‘‘۔(رواه احمد و ابن ماجه والطبرانی وغيره)
اگر معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں کوئی کافر تھا یا مشرک تو نہ صرف اس نسبت کا اعلان کرنا بلکہ ان پر فخر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات سب موحد مومن تھے لہذا ان پر فخر کرنا، ان کا نسب باقی رکھنا اپنی جگہ بالکل درست اور بجا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بناکر دعا کی تھی:وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ.’’اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا۔‘‘۔(الْبَقَرَة، 2 : 128)
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ.ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔(الْبَقَرَة، 2 : 129)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوری ہوئی۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلم جماعت سے پیدا ہوئے اور اسی بات کو ہم ثابت کررہے ہیں۔
ارشاد فرمایا:لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ.’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے‘‘۔(التَّوْبَة ، 9 : 128)
ایک قراۃ میں اَنْفُسِکُمْ کی ’’ف‘‘ کو فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے یعنی اَنْفَسِکُمْ، جس کے معنی یہ ہوئے کہ تمہارے پاس یہ عظمت والے رسول نفیس ترین جماعت میں سے تشریف لائے۔ کافر چونکہ نفیس نہیں بلکہ خسیس ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد ماجدین اور جدات طاہرات اعلیٰ قسم کے مومن تھے۔ وہ کفر و شرک کے تمام انواع سے پاک و مبراء تھے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُo وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ ۔ ’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیں اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے‘‘۔(الشُّعَرَآء، 26 : 218. 219)
امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور پاک ساجدوں سے ساجدین کی طرف منتقل ہوتا رہا۔ یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ سب آباء کرام مسلمین تھے۔ امام سیوطی، ابن حجر مکی اور علامہ زرقانی نے اس تقریر کی تائید و توثیق فرمائی۔
ارشادفرمایا:وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى.’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔(الضُّحٰی ، 93 : 5)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت اجابت کا تو یہ عالم ہے کہ ان کے حق میں رب فرماتا ہے:سنرضی امتک ولا نسوک به.’قریب ہے کہ ہم تجھے تیری امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور تیرا دل برا نہ کریں گے‘‘۔ (رواہ مسلم)
امت کے معاملے میں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت پروردگار رد نہ فرمائے تو کیا والدین کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ گوارہ ہوگا کہ وہ معاذ اللہ جہنم میں رہیں۔
والدین کریمین کے ایمان کے حوالے سے یہ عذر بھی معقول ہے کہ نہ تو انہیں دعوت اسلام پہنچی اور نہ ہی انہوں نے زمانہ نبوت پایا۔ وہ دین ابراہیمی پر تھے، ان کے لئے عقیدہ توحید ہی کافی ہے۔ کسی ضعیف حدیث یا تاریخ سے ان کی طرف شرک کی نسبت ثابت نہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے:وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً.’’ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں‘‘۔(الْإِسْرَاء - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ، 17 : 15)
معلوم ہوا کہ جب والدین کریمین کو دعوت ہی نہیں پہنچی تو عذاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ حضرات دین ابراہیمی پر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ نے جو اشعار بوقت رحلت ارشاد فرمائے، ان سے ان کے ایمان کی دلیل ملتی ہے۔ جب والدہ ماجدہ نے اپنے فرزند جلیل سید مرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر حسرت سے نظر کی اور ان کی یتیمی کا خیال آیا تو فرمایا:
بارک الله فيک من غلام
يا انبی الذی من حرمة حمام
نجا بعون الملک المنام
فوری عدة انضرب باالسهام
بماته من الابل السوام
وان صح ماالبصرت فی المنام
فانت مبعوث الی الانام
تبعث فی الحل والحرام
تبعث فی التحقيق والاسلام
دين ابيک البر ابراهام
فاالله انهاک عن الاصنام
ان لا تو اليها مع اقوام
ترجمہ اشعار : اے لڑکے اللہ تجھ میں برکت رکھے، اے ان کے بیٹے جنہوں نے موت سے گھر سے نجات پائی۔ بڑے انعام والے بادشاہ اللہ عزوجل کی مدد سے جس صبح کو قرعہ ڈالا گیا۔ سو بلند اونٹ ان کے فدیہ میں قربان کئے گئے اگر وہ ٹھیک ٹھہرا جو میں نے خواب میں دیکھا ہے تو سارے جہاں کی طرف تو پیغمبر بنایا جائے گا جو تیرے نیکو کار باپ ابراہیم کا دین ہے۔ میں اللہ کی قسم دے کر تجھے بتوں سے منع کرتی ہوں کہ قوموں کے ساتھ ان کی دوستی نہ کرنا‘‘۔
حضرت آمنہ خاتون رضی اللہ عنہا کی فراق دنیا کے وقت اپنے ابن کریم کو یہ مبارک وصیت توحید و رد شرک میں فرق کے اعتبار سے آفتاب سے زیادہ روشن ہے اور اس کے ساتھ ملت ابراہیمی کا بھی پورا اقرار و ایمان ہے اور وہ بھی بیان بعثت عامہ کے ساتھ۔
ارشاد فرمایا:اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ.’’اﷲ خوب جانتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کا محل کسے بنانا ہے‘‘۔(الْأَنْعَام، 6 : 124)
اللہ رب العزت سب سے زیادہ معزز و محترم جگہ وضع رسالت کے لئے انتخاب فرماتا ہے لہذا کبھی کمتر قوموں اور رزیلوں میں رسالت نہیں رکھی۔ کفر و شرک سے زیادہ رذیل کونسی چیز ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کیوں کر اس نور رسالت کو اس میں ودیعت کرے۔ کفار محلِ غضب و لعنت ہیں اور نورِ رسالت کے وضع کو محلِ رضا و رحمت درکار ہے۔ پس معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اصلاب طیبہ سے ارحام طاہرہ کی طرف گردش کرتا ہوا حضرت عبداللہ اور آمنہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ظاہر ہوا۔ وہ سب کے سب کفر و شرک، الحاد و بے دینی کی آلودگیوں سے پاک و منزہ تھے۔
قرآن پاک میں ہے کہ : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِo إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِo
’’بے شک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے اور مشرکین (سب) دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں‘‘۔(الْبَـيِّـنَة ، 98 : 6. 7)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:انا محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بن لؤی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانه بن خزيمه بن مدرکه بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان مافترق الناس فرقتين الاجعلنی الله فی خير بهما فا خرجت من بين ابوی فلم يمسسنی شی من عهد الجاهلية وخرجت من نکاح ولم يمسنی من سفاح اخرج من آدم حتی انتهيت نکاح ابی وامی فانا خيرکم نفسا وخيرکم ابا.
’’میں ہوں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم۔۔۔ (یوں اکیس پشت تک نسب نامہ مبارک بیان کرکے فرمایا) کبھی لوگ دو گروہ نہ ہوئے مگر یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بہتر گروہ میں پیدا کیا تو میں اپنے ماں باپ سے اس طرح پیدا ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی کوئی بات مجھ تک نہ پہنچی اور میں خالص نکاح صحیح سے پیدا ہوا۔ آدم سے لے کر اپنے ابوین تک تو میرا نفس کریم سب سے افضل اور میرے باپ تم سب کے آباء سے بہتر‘‘۔(الخصائص الکبریٰ،دلائل النبوہ ،)
آیت مذکورہ میں رب العزت نے کفار اور مشرکین کو شرالبریہ فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اناخيرکم ابا ونفسا ’’میں تم میں سے ذات اور باپ کے اعتبار سے اچھا ہوں‘‘۔ پس یہ بات روز روشن سے بھی زیادہ عیاں اور روشن ہوگئی کہ سلسلہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی کافر مشرک داخل نہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر اب ہونا کس طرح ثابت ہوسکتا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی و دیگر محدثین علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں:ان آبا النبی صلی الله عليه وآله وسلم غير الانبياء وامهاته الی آدم وحوا ليس فيهم کافر لايقال فی حقه انه مختار ولا کريم ولا طاهر بل نجس وقد صدقت الا احاديث بانهم مختارون وان الآباء کرام والامهات طاهرات وايضا قال تعالی وتقلبک فی الساجدين علی احد التفاسير فيه ان المراد فننقل نوره من ساجدالی ساجد.
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب غیر انبیاء میں (کیونکہ جتنے انبیاء ہیں وہ تو انبیاء ہی ہیں) جس قدر آباء و امہات آدم و حوا تک ہیں ان میں کوئی کافر نہ تھا کہ کافر کو پسندیدہ، کریم یا پاک نہیں کہا جاسکتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کی نسبت حدیثوں میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ سب پسندیدہ بارگاہ الہٰی ہیں، آباء سب معزز اور بزرگی والے ہیں، مائیں سب پاکیزہ ہیں اور آیۃ کریمہ وتقلبک فی الساجدین کی بھی ایک تفسیر یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ایک ساجد سے دوسرے ساجد کی طرف منتقل ہوتا آیا‘‘۔
اب اس سے صاف ثابت ہورہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین ماجدین اہل جنت ہیں کیونکہ ساجد مشرک و کافر نہیں ہوتے بلکہ مومن و موحد ہی ہوتے ہیں۔
چند سوالات اور ان کے جوابات
سوال: قرآن کریم نے آزر کو ابراہیم علیہ السلام کا باپ بتایا اور وہ تو بت تراش تھے اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں مشرک آگیا؟
جواب: اس کے متعلق عرض ہے کہ مفسرین و اہل تاریخ کا اس پر اتفاق ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا، باپ نہیں تھا۔ ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے حدیث موجود ہے کہ ’’آدمی کا چچا اس کے باپ کی جگہ ہوتا ہے۔ نیز قرآن کریم میں صریح آیت موجود ہے جس میں چچا کو باپ فرمایا گیا۔ نیز قرآن کریم اصطلاحات عرب کے مطابق نازل ہوا۔
سوال: روایات سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین زندہ کئے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے۔
جواب: اولاً تو اس حدیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کا ایمان ثابت ہوتا ہے ہے جو لوگ اب بھی ایمان کے قائل نہیں جواب تو ان کو دینا ہے، یہ حدیث ہمارے مطلوب کے خلاف نہیں۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کا دوبارہ زندہ کرنا اور ایمان لانا معاذاللہ اس لئے نہیں تھا کہ وہ کافر تھے۔ ان کا کفر تو کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں بلکہ ان کو اس لئے زندہ کیا گیا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاکر حضور کے شرف صحابیت سے مشرف ہوں اور خیرالامۃ میں داخل ہوجائیں۔ ان کا زندہ کرنا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا یہ تو مزید انعام و اکرام کے لئے تھا ورنہ وہ پہلے ہی سے ملت ابراہیمی پر تھے۔ جس طرح گذشتہ قصیدہ میں ثابت ہوچکا ہے۔ ان کا اہل توحید سے ہونا ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہے اس لئے کہ وہ تو احکام کے مکلف ہی نہیں تھے جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے۔
سوال: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو والدین کے لئے استغفار سے کیوں منع فرمایا گیا؟
جواب :حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استغفار سے بھی رب العزت نے اس لئے منع فرمایا کہ آپ کے والدین گنہگار تھے ہی نہیں۔ استغفار تو گناہگاروں کے لئے ہوتا ہے اور گنہگار و مجرم وہ ہے جو نبی یا رسول کی دعوت توحید و احکام سے اعراض کرے اور انکار کردے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کے لئے یہ دونوں امر ثابت نہیں۔
4۔ سوال: فقہ اکبر کی عبارت ماتا علی الکفر ’’ان کی موت کفر پر ہوئی‘‘سے کیا مراد ہے؟
جواب: 1۔ اول تو یہ مسئلہ اجتہادی نہیں کہ ہم اس میں کسی امام کی پیروی یا تقلید کریں۔
2۔ دوسرا یہ کہ فقہ اکبر کی عبارت مؤل ہے یعنی ماتا علی عهد الکفر. یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کا عہد کفر میں انتقال ہوا اور یہ بات مسلّم ہے اس سے کوئی انکار نہیں۔
3۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ ماماتا علی الکفر ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کا کفر پر انتقال نہیں ہوا۔
4۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ عبارت بعض نسخوں میں سرے سے موجود ہی نہیں اس لئے ہمیں اس عبارت کی جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں۔
خلاصہ کلام : مسئلہ اس قدر نازک ہے کہ اگر احتیاط ہاتھ سے نکل جائے تو ایمان سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین ماجدین کے کفر کے متعلق (معاذاللہ) قول کرنا کوئی آسان کام ہے۔ ارشاد فرمایا:وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.’’اور جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بد زبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔(التَّوْبَة، 9 : 61)
عقلمند کو چاہئے کہ ایسی پر خطر جگہ احتیاط سے کام لے۔ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ’’ کسی مسلمان کی طرف گناہ کبیرہ کی نسبت جائز نہیں جب تک تواتر سے ثابت نہ ہو‘‘۔ کفر کی نسبت کا معاملہ تو بہت ہی دشوار ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے قول سے سبق لیا جائے، فرماتے ہیں: اگر کسی میں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک ایمان کا تو اس کے لئے بھی کفر کی نسبت کرنا جائز نہیں‘‘۔ خود ساختہ مقلدین کے پاس امام کے اس ارشاد کا کیا جواب ہے هَاتُوْا بُرْهَانکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْن. ’’ اگر تمہارے پاس کوئی برہان ہے اور تم سچے ہو تو وہ برھان لاؤ‘‘۔
کیا تمہارا ایمان گوارہ کرتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادنیٰ غلام جنت نعیم میں داخل ہوں اور جن کے نعلین کے تصدق جنت بنی ان کے ماں باپ دوسری جگہ (معاذ اللہ) غضب و عذاب میں مبتلا ہوں۔ کیا آمنہ خاتون رضی اللہ عنہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم سے بھی کم ہیں۔۔۔ کیا یہ آپ کو پسند ہوگا کہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام اپنی والدہ کو جنت میں دیکھیں اور محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ وہاں نظر نہ آئیں۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین ماجدین کے ناموں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ کون تھے۔ اپنا تو یہ موقف ہے کہ یہ سارا باغ ہے اور وہی اس کے مالی ہیں۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ مالی تو باغ کی فرحت و مسرت سے محروم ہو اور غیروں کے لئے بساط عیش و عشرت بچھا رہے۔(الحمد للہ یہ مضمون مکمل ہوا ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔