(حصّہ اوّل) حضور ﷺ کے والدین رضی اللہ عنہما کو جہنمی کہنے والوں کو جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین کا وصال زمانہ فترت میں ہوا، آپ خالص توحید پرست تھے، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً ۔ (الْإِسْرَاء - - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ، 17 : 15)
ترجمہ : اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت ختم ہو چکی تھی، لہذا اللہ تعالی کا یہ اصول ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی نبی کو مبعوث نہ فرمائے اور لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوں تو جب تک کوئی نئی شریعت نہیں آتی اس وقت تک صرف توحید کا ماننا ضروری ہوتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کے مومن ہونے پر پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ.’’اور یقینًا مشرک مرد سے مومن غلام بہتر ہے‘‘۔(الْبَقَرَة ، 2 : 221)
یہ مسئلہ قطعی ہے کہ مسلمان چاہے حسب و نسب میں کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ اعلیٰ قوم و اولیٰ نسب والے مشرک سے بدر جہا بہتر اور افضل ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بعثت من خير قرون بنی آدم قرنا فقرنا حتی کنت من القرن الذی کنت منه.’’مجھے ہر قرن و طبقہ میں تمام قرون آدم کے بہتر میں سے بھیجا گیا یہاں تک کہ اس قرن میں ہوا جس سے پیدا ہوا‘‘(صحيح بخاری، باب صفة النبی صلی الله عليه وآله وسلم، رقم : 3364)
اب اس حدیث کو آیۃ مذکورہ سے ملایا جائے تو دعوی بالکل واضح ہوجائے گا۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ مشرک سے مومن غلام بہتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے پتہ چلا کہ میں خیر قرون سے ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ میں ایمان والوں کی پشت سے ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فی الارض سبعة مسلمين فصاعدا فلولا ذالک لهلکت الارض ومن عليها.’’روئے زمین پر ہر زمانے میں کم سے کم سات مسلمان رہے ہیں، ایسا نہ ہوتا تو زمین و اہل زمین سب ہلاک ہوجاتے‘‘۔(اخرجه عبدالرزاق، بسند صحيح علی شرط الشيخين)
اب ان دونوں حدیثوں کو صغریٰ، کبریٰ کے طریق پر ملایا جائے تو ان دونوں کو ملانے کے نتیجے کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کا ایمان ہی ثابت ہوتا ہے۔ اول حدیث میں صاف طور پر فرمایا گیا کہ ’’میں خیر قرون سے ہوں‘‘ اور دوسری حدیث نے بتایا کہ ’’روئے زمین پر ہمیشہ کم از کم سات مسلمان رہے ہیں‘‘ اور آیۃ مذکورہ۔ ولعبد مومن خير من مشرک، سے نتیجہ یہ نکلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہمیشہ خیر سے خیر کی طرف منتقل ہوتا رہا اور چونکہ خیر، مومن ہے، مشرک و کافر، خیر نہیں۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسب مومنین سے ہے مشرکین سے نہیں۔
صغریٰ پر دلیل کی طرف امام جلیل، جلال الدین سیوطی نے ارشاد فرمایا:والمعنی ان الکافر لا اهل شرعا ان يطلق انه من خير القرون.’’شرعاً کافر ہرگز اس کا اہل نہیں ہوسکتا کہ وہ خیر قرن سے ہو‘‘۔
خیر قرن سے مومن ہی ہوسکتا ہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصول (آباء و امہات) سب مومن قرار پائے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ.’’مشرکین تو سراپا نجاست ہیں‘‘۔
(التَّوْبَة، 9 : 28)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:لم ازل انقل من اصلاب الطاهرين الی ارحام الطاهرات ۔ ’’میں ہمیشہ پاک مردوں کی پشتوں سے پاک بیبیوں کی طرف منتقل ہوتا رہا‘‘۔(رواه ابو نعيم فی دلائل النبوه عن ابن عباس رضی الله عنه)
ان مندرجہ بالا آیت و حدیث کو آپس میں ملایا جائے تو مطلب بالکل واضح ہوجائے گا کیونکہ قرآن عظیم نے بلاشبہ مشرکین کے نجس ہونے کا فیصلہ فرمایا اور حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آباء و امہات کو طیب و طاہر فرمایا۔ مشرکین نجس ہیں کبھی طاہر نہیں ہوسکتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصول (آباء و امہات) طاہر ہیں کبھی نجس نہیں ہوسکتے۔ پس لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد اور امہات و جدات مومن موحد تھے کبھی مشرک و کافر نہیں ہوسکتے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر اور میرا یہ نسبتی تقدس حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہما تک برقرار رہا۔ (اور زمانہ جاہلیت کی بد کرداریوں اور آوارگیوں کی ذرا بھر ملاوٹ میری نسبت میں نہیں پائی گئی)(السنن الکبریٰ، 7 : 190)
اسی طرح ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں پاک نسبوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوا ہوں،
قرآن مجید کی آیت اور احادیث سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین حق پرست تھے، تو حید پرست تھے، البتہ اگر کوئی ان کو (معاذ اللہ) جہنمی کہتا ہے تو وہ خود جہنمی ہے۔ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہو سکتا۔ جو ایسا کہتا ہے وہ اس کی دلیل پیش کرے، کہ کس آیت یا حدیث میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین رضی اللہ عنہما جہنمی ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
اہل سنت کے علماء محقیقین مثلاً امام جلال الدین سیوطی و علامہ ابن حجر ہثیمی و امام قر طبی و حافظ الشام ابن ناصرالدین و حافظ شمس الدین و مشقی،و قاضی ابو بکرابن العربی مالکی و شیخ عبدالحق محدث د ہلوی، و صاحب الاکلیل مولانا عبدالحق مہاجر مدنی و غیرہ رحمتہ اللہ علیہم کا یہی عقیدہ اور قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں یقینًا بلا شبہ مومن ہیں چنانچہ اس بارے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ : حضور کے والدین کو مومن نہ ماننا یہ علماء متقدمین کا مسلک ہے لیکن علماء متاخرین نے تحقیق کے ساتھ اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے کہ حضور کے والدین، بلکہ حضور کے تمام آباؤ اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب “مومن“ ہیں۔
اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء متاخرین کے تین طریقے ہیں۔ اول یہ کہ حضور کے والدین اور آباؤ اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے، لہذا “ مومن“ ہوئے۔ دوم یہ کہ یہ تمام حضرات حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے اعلان نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانہ “ فترت “ کہلاتا ہے۔ اور ان لوگوں تک حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی دعوت ایمان پہنچی ہی نہیں۔ لہذا ہر گز ہر گز ان حضرات کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ ان لوگوں کو مومن ہی کہا جائے گا۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی تصدیق کی۔
اور حضور کے والدین کو زندہ کرنے کی حدیث اگرچہ بذات خود ضعیف ہے مگر اس کی سندیں اس قدر کثیر ہیں کہ یہ حدیث “ صحیح “ اور “ حسن“ کے درجے کو پہنچ گئی ہے۔
اور یہ وہ علم ہے جو علماء متقدمین پر پوشیدہ رہ گیا جس کو حق تعالیٰ نے علماء متاخرین پر منکشف فرمایا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرما لیتا ہے۔ اور شیخ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں چند رسائل تصنیف کئے ہیں اور اس مسئلہ کو دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور مخالفین کے شہبات کا جواب دیا ہے۔ ( اشعتہ اللمعات ج اول ص 718)
اسی طرح خاتمتہ المفسرین حضرت شیخ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایمانِ بی بی آمنہ ( رضی اللہ عنہا )(تفسری روح البیان)
امام قرطبی نے اپنی کتاب “ تذکرہ “ میں تحریر فرمایا کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا*) نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام جب “ حجۃ الوداع “ میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اورحجون“ کی گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی پھر حضور اپنی اُ نٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر بعد میرے پاس واپس تشریف لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا بات ہے؟ کہ آپ رنج و غم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے اور واپس لوٹے تو شاد و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ کی قبر کے لئے گیا تھا۔ اور میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے تو خدا وندی تعالیٰ نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں۔(تفسیر قرطبی)
اور “ الاشباہ والنظائرہ “ میں ہے کہ ہر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مر گیا ہو اس پر لعنت کرنا جائز ہے- بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو زندہ فرمایا اور یہ دونوں ایمان لائے۔
امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے منکرینِ فضائلِ رسالت مآب (ﷺ) کا ردِّ بلیغ کرتے ہوئے آپ نے ایک کتاب تصنیف فرمائی ۔جس کی عبارتِ ذیل اردو ادب کا ایک بہترین جوہر پارہ اور والدینِ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ وسلم کے مومن و موحد ہونے کا بیان بھی ہے… پیرایۂ اظہار وبیان پر غور کیجیے : اے چشمِ انصاف! کیا ہر تعلق ہر علاقہ میں ان پاک مبارک ناموں کا اجتماع محض اتفاقی بہ طور جزاف تھا؟… کلّا واللہ! بل کہ عنایتِ ازلی نے جان کر یہ نام رکھے… دیکھ دیکھ کر یہ لوگ چُنے… پھر محلِّ غور ہے جواس نورِ پاک کو بُرے نام والوں سے بچائے وہ اسے بُرے کام والوں میں رکھے گا؟… اور برا کام بھی کون سا ؟… معاذ اللہ ! شرک و کفر… حاشآء … اللہ اللہ !… دائیاں مسلمان… کھلائیاں مسلمان… مگر خاص جن مبارک پیٹوں میں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پاوں پھیلائے ؛ جن طیّب مطیّب خونوں سے اِس نورانی جسم میں ٹکڑے آئے ، معاذاللہ ! چنیں و چناں حاش للہ کیوں کر گوارا ہو؟… عخدا دیکھا نہیں قدرت سے جانا ، (امام احمدرضا بریلوی:شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۳۳)
حضرت سیدہ آمنہ خاتون رضی اللہ عنہا اپنے ابنِ کریم مصطفی پیارے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کواس دارِ فانی سے کوچ کرتے وقت نصیحت فرماتی ہیں کہ :’’ہر زندے کو مرنا ہے، اور ہر نئے کو پُرانا ہونا اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے میں مرتی ہوں اور میرا ذکر ہمیشہ خیر سے رہے گا، میں کیسی خیرِ عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے پیدا ہوا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اس موضوع کے تحت امام احمد رضامحدث بریلوی کا یہ شگفتگی،شیفتگی اور وارفتگی سے پُر ادب پارہ نشانِ خاطر ہو : یہ اُن کی فراستِ ایمانی… پیشن گوئیِ نورانی… قابلِ غور ہے کہ میں انتقال کرتی ہوں اور میرا ذکرِ خیر ہمیشہ رہے گا… عرب و عجم کی ہزاروں شاہ زادیاں… بڑی بڑی تاج والیاں خاک کا پیوند ہوئیں… جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا… مگر اس پاک طیّبہ خاتون کے ذکرِ خیر سے مشارق و مغاربِ ارض میں محافل و مجالسِ اِنس و قدس میں زمین و آسمان گونج رہے ہیں اور ابدالآباد تک گونجیں گے… وللہ الحمد …‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۴۰)(جاری ہے)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
1 comments:
حضور ص کے والدین کے ساتھ ابوطالب اور عبدالمطلب کو بھی زندہ کیا گیا وہ آپ پر ایمان لائے ۔ اس کا ذکر آپ کہوں نہیں کرتے اسی حدیث مین ہے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔