Pages

Monday, 20 November 2017

سوال: کیا ایسا کوئی عمل جو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلّم کے اسوہ سے ثابت نہیں ہے کرنا دین میں اضافہ اور بدعت نہیں ہے؟ اس اعتراض کا جواب پڑھیئے

سوال: کیا ایسا کوئی عمل جو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلّم کے اسوہ سے ثابت نہیں ہے کرنا دین میں اضافہ اور بدعت نہیں ہے؟ اس اعتراض کا جواب پڑھیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بدعت کا لغوی معنی

نیا کام، نئی ایجاد، نئی بات

بدعت کاشرعی معنی

ہر وہ کام جو سرکار اعظمﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو۔

بدعت کی دو قسمیں ہیں

(1) بدعت حسنہ (2) بدعت سیہ

اب ان دو اقسام پر روشنی ڈالتے ہیں

(1) بدعت حسنہ کی تعریف

ہر وہ طریقہ جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہ ہو ، بعد میں ایجاد ہوا ہو اور وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو جیسے نماز تراویح، جماعت کے ساتھ ادا کرنا، قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے بہت سے دوسرے علوم و فنون پڑھنا اور سیکھنا، دینی مدارس قائم کرنا، قرآن مجید کے اعراب کا لگایا جانا، قرآن مجید پر غلاف چڑھانا، قرآن مجید کی اعلیٰ طباعت کے ساتھ شائع کرنا، مساجد میں محرابیں بنانا، مساجد کے بلند مینار تعمیر کروانا، جمعہ کے دن دو اذانیں دینا، دانے والی تسبیح پڑھنا وغیرہ وغیرہ

کتاب کشاف اصطلاحات الفنون جلد اول صفحہ 122 میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کے حوالے سے ہے کہ وہ بدعت جو کتاب اﷲ، سنت، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے۔

بدعت حسنہ پر عمل کرنا باعث اجروثواب ہے

من سنن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا من غیر ان ینقص من اجورہم شئ

ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اس کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگی (ابو داؤد شریف)

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر وہ اچھا کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ اقدس میں نہ ہو، بعد میں ایجاد ہوا ہو اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اور ایجاد کرنا دونوں باعث اجر ہیں۔

عن ابی سلمہ ان النبیﷺ عن الامر یحدث لیس فی کتاب ولا سنۃ فقال ینظر فیہ العابدون من المومنین

ترجمہ: حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار اعظمﷺ سے ایسے نئے کام جس کی وضاحت کتاب وسنت میں ہو کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس امر محدث کے بارے میں عابدین مومنین کو غوروفکر کرنا چاہئے (سنن دارمی باب النورع عن الجواب فی مالیس فیہ کتاب ولا سنتہ جلد اول ص 54)

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر نئے کام کو برا سمجھ کر رد نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے یہ واضح حکم موجود ہے کہ مجتہدین اور اہل اﷲ اس کے بارے میں فیصلہ کریں۔

اسی بناء پر حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اور دوسرے بہت سے ائمہ نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں۔

(1) بدعت واجب، (2) بدعت مندوبہ، (3) بدعت مباحہ، (4) بدعت مکروہہ، (5) بدعت حرام

ماراہ المسلمون حسنا فہو عنداﷲ حسن : ترجمہ: جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے (موطا امام محمد باب قیام شہر رمضان ص 144)

(1) امام کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:

اتباع مااشتہر العمل بہ فی الناس واجب

ترجمہ: جو عمل لوگوں میں مشہور ہوجائے جبکہ شریعت کے مطابق ہو، اس کی اتباع ضروری ہے (بحوالہ: بدائع الصنائع فصل فی بیان یامستحب فی یوم العید، جلد اول)

(2) علامہ بدرالدین عینی (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو کام شریعت کے مخالف نہ ہو تو وہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی بدعت ہے۔

(3) علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ، شامی کے مقدمے میں فرماتے ہیں ’’یہ حدیث اسلام کے قوانین ہیں کہ جو شخص کوئی بری بدعت ایجاد کرے، اس پر تمام پیروی کرنے والوں کا گناہ ہے اور جو شخص اچھی بدعت نکالے، اسے قیامت تک اس عمل کی پیروی کرنے والوں کا ثواب ہوگا‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت کوئی چیز نہیں ہے تو یہ بات مسلم شریف کی حدیث کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔

(4) شیخ وحید الزماں جوغیر مقلدین اہلحدیث کے امام ہیں، حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کے حوالے سے اپنی کتاب ہدیۃ المہدی ص 117 میں لکھتے ہیں کہ بدعت حسنہ (اچھی بدعت) کو دانتوں سے (مضبوطی سے) پکڑ لینا چاہئے کیونکہ سرکار اعظمﷺ نے اس کو واجب کئے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے نماز تراویح۔

(5) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ماہ رمضان میں نماز تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا تو کسی نے عرض کیا کہ یہ ’’بدعت‘‘ ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے جواب میں فرمایا ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے

ان تمام احادیث اور علمائے امت کے اقوال سے یہ بات نہایت آسانی سے معلوم ہورہی ہے کہ ہر وہ ایسا عمل جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا بلکہ بعد میں ایجاد ہوا، اگر وہ شریعت مطہرہ اور سنت رسولﷺ کے مخالف نہیں تو اس پر عمل کرنا مستحب اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔

سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اس کے لئے اس کا ثواب ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب بھی (بحوالہ مسلم شریف، جلد تیسری، ص 718)

مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر وہ اچھا کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہوا اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اور ایجاد کرنا دونوں باعث اجر ہیں۔

تفسیر روح البیان میں ہے کہ وہ کام جسے علماء اور عارفین ایجاد کریں اور وہ سنت کے خلاف نہ ہو تو یہ اچھا کام ہے۔

(2)بدعت سیۂ کی تعریف

ہر وہ کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانے میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو اور وہ شریعت کے مخالف ہو۔

(1) کتاب اصطلاحات الفنون ص 133 جلد اول میں ہے کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ بدعت جو کتاب، سنت، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف ہو تو یہ بدعت سیۂ یعنی بری بدعت ہے۔

(2) کتاب نیل الادطارباب صلوٰۃ جلد سوم ص 57 میں ہے کہ اگر بدعت ایسے وصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیۂ ہے۔

(3) امام حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ دین میں کسی ایسی نئی چیز کا ایجاد کرنا جس کی اصل (دلیل) شریعت میں نہ ہو)

(4) علامہ ابن منظور افریقی فرماتے ہیں کہ وہ نئی بات جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو، بدعت سیۂ ہے۔

(5) مشکوٰۃ المصابیح باب الاعتصام جلد اول میں ہے کہ جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نیا عقیدہ ایجاد کیا کہ جو دین کے خلاف ہو تو ہو مردود ہے۔

(6) علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ ’’ہر نیا کام بدعت ہے‘‘ سے مراد وہ نیا کام ہے جو شریعت کے مخالف ہو اور سنت کے موافق نہ ہو۔

معلوم ہوا کہ جو چیز اسلام سے ٹکرائے وہ بدعت سیۂ یعنی بری بدعت ہے اور جو دین اسلام سے نہ ٹکرائے اور جن کاموں کو قرآن و سنت میں منع نہیں کیا گیا، وہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہل بیت اطہار نے سرکار اعظمﷺ کے ظاہری زمانے میں اور بعد میں اپنے دل سے بہت سی ایسی اچھی بدعتیں یا نئے کام بھی کئے، جن کا حکم نہ قرآن مجید میں آیا، جو نہ سرکار اعظمﷺ نے خود کئے اور نہ کرنے کا حکم دیا۔

(1) حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ کو قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیا تو حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے عرض کیاکہ آپ رضی اﷲ عنہ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو سرکار اعظمﷺ نے نہیں کیا؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ یہ کام اچھا ہے (بخاری شریف)

(2) نماز تراویح ایک عبادت ہے جو سرکار اعظمﷺ کی ظاہری حیات میں ہر سال پورے رمضان جماعت سے نہیں ہوئی تھی مگر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اسے رائج کرتے ہوئے اس کے لئے ’’بدعت‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے‘‘ (بخاری شریف)

(3) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے جمعہ میں دو اذانوں کا طریقہ شروع کیا

(4) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ایک ہی شہر میں نماز عید کے دو اجتماعات شروع کئے

(5) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے علم نحو ایجاد کیا

(6) حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے علم صرف ایجاد کیا

(7) حضرت حباب رضی اﷲ عنہ نے پہلی مرتبہ شہید کئے جانے سے پہلے دو رکعت نفل ادا کئے

(8) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے وعظ کے لئے جمعرات کا دن متعین کیا (بخاری شریف)

(9) حضرت بلال رضی اﷲ عنہ وضو کے بعد دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے حالانکہ سرکار اعظمﷺ نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا

(10) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے قرآن مجید کو جمع کرکے ایک کتابی صورت تشکیل دی۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایجاد کردہ کام ’’بدعت‘‘ ہیں یا ’’سنت‘‘؟ کچھ علماء کا خیال ہے کہ ’’سنت‘‘ ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقوں پر چلنے کی ہدایت سرکار اعظمﷺ کے فرمان میں موجود ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایجاد کردہ کام ’’بدعت حسنہ‘‘ ہیں۔ حدیث شریف میں خلفائے راشدین کی ’’سنت‘‘ کا مطلب ان کا طریقہ ہے اور یہ طریقہ ان معنوں میں ’’سنت‘‘ نہیں جس طرح کہ سرکار اعظمﷺ کی سنت ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔