Pages

Wednesday, 24 August 2016

کیا رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کہنا صرف صحابہ کے لیے ہے؟ یا تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ اور نیک لوگوں کے لیے بھی ہے؟

کیا رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کہنا صرف صحابہ کے لیے ہے؟ یا تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ اور نیک لوگوں کے لیے بھی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں‌ تفصیلاً وضاحت فرمائیں۔

جواب: بعض مسائل شریعت میں کچھ ہوتے ہیں مگر ہم لوگ قرآن و سنت کا مطالعہ نہ کرنے کی بناء پر ان کو کچھ اور ہی بنادیتے ہیں اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ نیز اپنی اس روش پر ناز کرتے ہیں اور کوئی دوسرا خلوص نیت سے ہماری غلطی دلیل کے ساتھ واضح بھی کردے تو اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔ علماء کہلانے والوں کی یہ روش بڑی تکلیف دہ ہے۔ ’’صلوٰۃ و سلام‘‘ اور ’’ترضّی و ترحّم‘‘ (رضی اللہ عنہ اور رحمۃ اللہ) کہنا بھی ان مسائل میں شامل ہے۔ جن کو نادانی سے اختلافی بنادیا گیا ہے اور صورت حال یہاں تک جاپہنچی ہے کہ علماء کہلانے والے بزرگ اس بناء پر تکفیر و تفسیق تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے اس کا علاج صرف علم کی روشنی ہے۔ علم جوں جوں بڑھے گا، قرآن و سنت کا جوں جوں مطالعہ کرنے کی ہمیں عادت پڑے گی جہالت ختم ہوگی اور اختلاف معدوم ہوجائے گا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَo
(التوبه : 31)
’’ انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیںo‘‘۔
قرآن پاک میں متعدد مقامات پر غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰۃ استعمال کیا گیا۔ آیئے اُن میں سے چند مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں :
1۔ غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰۃ
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا
(الاحزاب : 43)
’’(اللہ) وہی ہے کہ درود (رحمت) بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے‘‘۔
2۔ اہل ایمان پر صلوۃ
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(التوبه : 103)
’’اے محبوب ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوۃ) وصول کرو، جس سے آپ انہیں ستھرا اور پاکیزہ کرو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو، بے شک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے‘‘۔
3۔ منافقوں کیلئے صلاۃ نہیں
وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِه إِنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُواْ وَهُمْ فَاسِقُونَ
(التوبه : 84)
’’اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول سے منکر ہوئے اور نافرمانی (فسق) میں ہی مرگئے‘‘۔
4۔ صبر کرنے والوں پر صلوٰۃ
أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ
’’ان (صبر کرنے والوں) پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت‘‘۔
(البقرة : 157)
قرآن پاک کی طرح مختلف احادیث مبارکہ میں بھی غیر نبی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کو استعمال فرمایا۔ ان احادیث میں سے چند یہ ہیں :
ہدیہ پیش کرنے والے پر صلوٰۃ
٭ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب بھی کوئی صاحب صدقہ (ہدیہ) پیش کرتا تو سرکار فرماتے اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَيه ’’اے اللہ اس پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرما‘‘۔ میرے والد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا صدقہ (ہدیہ) لائے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِيْ اوفٰی.
’’اے اللہ آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت) بھیج‘‘۔
(بخاری کتاب الدعوات ج 2 ص 941 طبع کراچی، صحيح مسلم ج1، کتابُ الزکوة)
امام بخاری نے اس حدیث کا عنوان یعنی ترجمۃ الباب یوں لکھا ہے :
هَلْ يُصَلّٰی عَلٰی غَيْرِ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم.
’’کیا نبی کے بغیر کسی پر صلوٰۃ بھیجی جاسکتی ہے؟‘‘۔
اور ا س سے پہلے سورۃ توبہ کی آیت اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُم ’’اور اے حبیب ان کے لئے دعائے خیر کریں بے شک آپ کی دعائے خیر ان کے لئے باعث سکون ہے‘‘ سے اس کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
درجہ بالا مآخذ کے علاوہ مزید حوالہ جات کے لئے دیکھئے :
1. سنن ابی دائود، کتاب الزکوة، باب دعاء المصدق لاهل الصدقة 2.106، رقم 1590
2. سنن ابن ماجه کتاب الزکوة، 1.572 رقم 1796
3. سنن نسائی، کتاب الزکوة، باب صلوٰة الامام علی صاحب الصدقة، 5.31، رقم 2459
4. مسند احمد بن حنبل، 4.383، رقم 19435
5. صحيح ابن حبان، 3.197، رقم 917، باب الادعيه
٭ سیدنا جابر اور ان کی زوجہ رضی اللہ عنہما کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی :
صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْکَ وَعَلٰی زَوْجِکَ.
’’اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہاری بیوی پر صلوٰۃ نازل فرمائے‘‘۔
1. صحيح ابن حبان، باب الادعية، ذکرالاباحاة... 3.197، رقم 916
2. سنن ابی دائود، کتاب الصلوة، باب الصلوة علی غير النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 2.88، رقم 1533
غیر نبی کیلئے لفظ ’’سلام‘‘ کا استعمال
لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کی طرح غیر نبی کے لئے قرآن پاک کے متعدد مقامات پر لفظ ’’سلام‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ چند مقامات درج ذیل ہیں :
1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا
(النور : 27)
’’اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں اجازت لئے اور گھر والوں پر سلام کئے بغیر داخل نہ ہو‘‘۔
2. فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً
(النور : 61)
’’پھر جب کسی گھر میں جائو تو اپنوں کو سلام کرو، ملتے وقت کی اچھی دعا اللہ کے پاس سے، مبارک پاکیزہ‘‘۔
3. لاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
’’جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں‘‘۔
(النسائ : 94)
4. وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ
’’جب (اے محبوب) تمہارے حضور وہ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے فرمائو، تم پر سلام‘‘۔
(الانعام : 54)
5. سَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى
(النمل : 59)
’’سلام اس کے چُنے ہوئے بندوں پر‘‘۔
کہاں تک نقل کروں، قرآن و سنت میں جابجا انبیاء و غیر انبیاء اہل ایمان پر سلام کا لفظ یا اس کا مترادف بولا گیا ہے۔
تَرَضِّيْ کا استعمال (رضی اللہ عنہ کہنا)
’’صلوٰۃ و سلام‘‘ کی طرح قرآن پاک کے متعدد مقامات پر مومنین، صالحین کے لئے بھی ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں :
1۔ جو سچے بندے ہیں
رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ
’’اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی‘‘۔
(المائده : 119)
2. رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ
(المجادله : 22)
’’اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ یہ ہے اللہ کی جماعت‘‘۔
3. رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ
(البینة : 8)
’’اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ (خوشخبری) اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرے‘‘۔
تَرَحُّم (رحمۃ اللہ علیہ کہنا)
اسی طرح ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے الفاظ بھی مومنین صالحین کے لئے قرآن پاک میں جابجا مذکور ہیں :
1. رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ
(ھود : 73)
’’اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم پر، اس گھروالو!‘‘۔
2. أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
(البقره : 157)
’’یہ لوگ ہیں (تنگی و تکلیف میں صبر کرنے والے) جن پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں‘‘۔
مذکورہ آیات و احادیث مختصر سا انتخاب ہے ورنہ اس موضوع پر بہت کچھ اور بھی نصوص پیش کی جاسکتی ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے صلوۃ، سلام، رحمت و رضا اور ان سے مشتق ہونے والے تمام کلمات کا اطلاق انبیائے کرام، صحابہ کرام اور اولیائ، علمائ، شہداء بلکہ عام مسلمانوں پر بھی جائز ہے۔ جب قرآن و سنت سے اس کا ثبوت موجود ہے اور وہ بھی عبارۃ النص سے، تو ان کلمات طیبات کو ان میں سے کسی بھی طبقہ پر شرعاً، عرفاً بولا جاسکتا ہے جبکہ ناجائز ہونے کی کوئی ایک بھی دلیل شرعی نہیں۔ ان قطعی نصوص کے ہوتے ہوئے کسی عالم کے قول کی آخر کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ ہم سوچیں کہ کیا ان صریح نصوص کے ہوتے ہوئے کسی عالم کا حوالہ دینا دین کی خدمت ہے؟ طبع نازک پر بار نہ ہو تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اقدس سن لیجئے :
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اتيت النبی صلی الله عليه وآله وسلم وفی عنقی صليب من ذهب فقال ياعدی اطرح عنک هذا الوثن وسمعته يقراء فی سورة براء ة اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله قال اما انهم لم يکونوا يعبدونهم لکنهم کانوا اذا احلوا لهم شئيا استحلوه واذا حرموا عليهم شيئًا حرموه.
’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس حال میں کہ میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی، فرمایا عدی! اس بت کو اتار پھینکو، اور میں نے آپ کو سورہ براء ۃ (توبہ) میں سے یہ آیت کریمہ پڑھتے سنا کہ ’’انہوں (یہود) نے اپنے علماء اور صوفیاء کو، پروردگار عالم کے مقابلہ میں، رب بنالیا تھا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سن لو! انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی، نہ کرتے تھے لیکن جب یہ پیشواء ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے، تو وہ (عوام) اسے حلال سمجھتے اور جب کوئی چیز ان پر حرام قرار دیتے تو یہ اسے حرام مان لیتے تھے‘‘۔
(جامع الترمذی ج2 / 136،ابواب التفسير)
پس اے صاحبان علم و معرفت اپنا مرتبہ و مقام پہچانو! حق تلاش کرو، تحقیق و جستجو کرتے رہو، علم روشنی ہے۔ اس سے اپنا من بھی روشن کرو اور ماحول کو بھی نور بخشتے رہو۔
بعض اہل علم نے اگر کچھ اصول اپنائے ہیں تو نیک نیتی سے اپنائے ہونگے مگر خلوص و نیک نیتی سے صحیح، غلط اور غلط، صحیح نہیں ہوسکتا۔ نیک و بد، جائز و ناجائز کے پرکھنے کی کسوٹی قرآن و سنت ہے، خلوص نیت نہیں۔ بزرگ اگر بعض کلمات مثلاً صلوٰۃ غیر نبی یا غیر فرشتہ کے لئے استعمال نہیں کرتے تو ان کی مرضی مگر ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ قرآن و سنت کی محکم ہدایات تعامل کے ماتحت نہیں۔ تعامل امت ان کے ماتحت ہے۔
یہ کیسی سوچ ہے کہ ’’تاابد اہل سنت پہ لاکھوں سلام‘‘ کہنا تو جائز ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام کہنا جائز نہیں۔۔۔ السلام علیکم کہنا ہر مسلمان کو جائز ہے جبکہ اسی مسلمان کو علیہ السلام کہنا جائز نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام عقلی و علمی بات نہیں۔ لہذا اس پر سرپھٹول اور دنگا فساد، امت میں انتشار و افتراق بہت نامناسب، کم علمی، کوتاہ بینی اور فی سبیل اللہ فساد ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔