*آخر اکابر دیوبند کیا تھے؟*
آپ اس سوال کو ہلکا پھلکا سوال نہ سمجھیں درجنوں کتب علماء دیوبند کی دیکھ چکا سمجھ نہیں آتا کہ انہیں کیا کہوں؟
جب دیوبندیوں کے حجۃ الاسلام نانوتوی کو دیکھا تو وہ بچوں کے کمر بند کھول رہے تھے
سوچا تھانوی صاحب حکیم الامت ہیں ان سے ملتے ہیں ان کو پڑھنا شروع کیا تو جناب مسخرہ پن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جناب خود ہی لکھتے ہیں کہ '' بچپن میں بھائ کے سر پر پیشاب کیا تھا
پھر سوچا چلو دیوبندی قطب عالم مولوی رشید گنگوہی سے ملیں ممکن ہے ان کی عادت مذکورہ بالا مولوی سے اچھی ہو یقین جاننے پڑھنے لگا تو مارے شرم کے کتاب ہی بند کرنی پڑی
رشید گنگوہی صاحب تو سارے دیوبندی سے آگے نکلے آں جناب دن دہاڑے اپنی خانقاہ میں نانوتوی کو لٹا کر سینے پر ہاتھ رکھ کر عاشق صادق 😬 ہونے کا ثبوت دیا صداقت یہاں تک پہنچی کہ جناب نے ہی فرمایا نانوتوی کے ساتھ میرا نکاح ہوا اور مجھے وہی لذت ملی جو ایک بیوی سے شوہر کو ملنا چاہیے
پھر سر پکڑ کر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ
*آخر اکابر دیوبند کیا تھے؟*
پھر دل نے کہا ایک بار اور پڑھو
میں نے سوچا چلو مان لیا کہ دیوبندیوں میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہیں کیوں کہ تھانوی صاحب ہی کہتے ہیں کہ
وہابی بے ادب ہوتا ہے
اب دیکھیں ان میں انسانیت کا کوئی عنصر بچا ہے یا نہیں؟
پھر ذہن میں عنوان قائم کیا
*آخر اکابر دیوبند کیا تھے؟*
سب سے پہلے میں نے اکابر کا مقام تواضع نامی کتاب ص 204 دیکھا تو حیران رہ گیا
تھانوی صاحب کہتے ہیں کہ *مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک خود کو کافر فرنگ سے بدتر نہ سمجھے*
دل بھر آیا کتاب سائڈ میں رکھ کر دوسری کتاب اٹھایا
ارواح ثلاثہ اٹھایا سوچا یہ کرامات پر مبنی کتاب ہے ممکن ہے تسلی ملے
پڑھتے پڑھتے ص 118 پر پہنچا تو دیکھ کر مزید حیرانی بڑھ گئی کہ سید احمد رائے بریلوی انسان کے بجائے '' کتا'' نکلا
اور وہ بھی بدصورت کتا
پھر سوچنے لگا کہ
گنگوہی تھانوی نانوتوی اور سید احمد رائے بریلوی کو پڑھ لیا کوئ کمر بند کھولتا ہے تو کوئ بھائی کے سر پر پیشاب تو کوئی دن دہاڑے خانقاہ ہی میں ازدواجی تعلقات مرد سے قائم کرنا چاہتا ہے
پھر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ
*آخر اکابر دیوبند کیا تھے؟*
خیال رہے دیوبندی علماء کو پرکھنے کے لیے انہی کی کتابوں کو پڑھا گیا ہے اور ہرجگہ حقیقی معنی ہی مراد لیا گیا کیونکہ دیوبندی ساجد خان نقشبندی جس کی ہم کر رہے ہیں نسبندی اس نالائق نا مراد نے
امام اہلسنت اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا مشہور شعر
*کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا*
*تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں*
اس کے اوپر ٹائٹل دیا
---آوارہ کتا----
اور تبصرہ میں لفظ کتے کو حقیقی معنی میں لیا جب دیوبندی مجازی معنی لیتے ہی نہیں تو اب ہم حقیقی کتا بنا کر ہی چھوڑیں گے
ساجد دیوبندی سن لو
*نہ صدمے تم ہمیں دیتے نہ یوں فریاد ہم کرتے*
*نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں*
*ابھی جاری*
حسن نوری گونڈوی
+918485880123
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔