ماتم کی ممانعت شیعہ حضرات کی معتبر تفسیر قمی و دیگر کتب شیعہ سے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(سورۃ المعارج) ان الاانسان خلق ھلو عااذامسہ الشر جز و عاواذ امسہ الخیر منوعاً الا المصلین الذین ھم فی صلوۃ تھم دائمون ۔
بے شک انسان (بخیل) بے صبرا پیدا کیا گیا ہے جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرتا ہے اور جب بہتری پہنچے تو رکنے والا ہے سوائے نمازیوں کے جو ہمیشگی کرنے والے ہیں اپنی نمازوں میں۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ بعض انسان خداوند کریم کے ناشکرے ہیں جن کو تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرنے لگ جاتے ہیں ہاں جو ہمیشہ کے پکے نمازی ہوں وہ ایسا نہیں کرتے۔ تو معلوم ہوا کہ بموجب قرآن کریم بے نمازی تکلیف کے وقت جزع و فزع کرتا ہے۔
وقال علیہ السلام ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخدہ عند مصیبۃ خبط عملہ۔(نہج البلاغتہ جلد ۳‘ ص ۱۸۵)
حضرت امیرالمو منین علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا صبر مصیبت اندازے سے نازل ہوتا ہے جس شخص نے مصیبت کے وقت اپنے ہاتھ رانوں پر مارے اس کے نیک اعمال ضائع ہو گئے۔
حضرت رسول نہی فرموداز گزیہ بلند و نوحہ کردن اور مصیبت و نہی فرموداز رفتن زنان پے جنازہا۔ (حلیۃ المتقین ص ۱۸۸)
حضرت رسول اﷲ ﷺ نے مصیبت میں بلند رونے اور نوحہ کرنے سے منع فرمایا اور جنازے کے پیچھے عورتوں کے جانے سے بھی منع فرمایا۔
نھی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونھی عن النیاحۃ والاستماع ایھا۔ (کتاب الامالی الصدوق ص ۲۵۴)
شیخ الطائفہ امامیہ صدوق صاحب نے دوسوچون صفحہ میں مصطفی ﷺ کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ مصطفی ﷺ نے مصیبت کے وقت بلند رونے سے منع فرمایا اور رمعہ سنانے سے بھی منع فرمایا۔
اصول کافی‘ ص ۴۲۰ من دق وجھہ دق عملہ۔ جس نے اپنے منہ کو نوچا اس کے نیک اعمال پھاڑے گئے۔
عدۃ. من اصحابنا عن احمد بن محمد عن عثمان بن عیسٰی عن ابی ایوب الخزاز عن رجل عن ابی عبداﷲ علیہ السلام فی قول اﷲ عزوجل ولا یعصینک فی معروف قال لا یشققن جیباً ولا یتخلفن عند قبر ولا یسوون توبا ولاینشرن شعرا ۔
(فروغ کافی جلد ۲‘ ص ۲۲۸)
حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے اﷲ تعالی کے فرمان ولا یعصینک فی معروف کے متعلق حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کرتے نہ پھاڑیں اور اپنے رخساروں پر طماچے نہ ماریں اور ہائے ہائے نہ پکاریں اور قبر کے پاس نہ بیٹھیں اور اپنے کپڑے سیاہ نہ کریں اور بال نہ نوچیں۔ (تفسیر قمی ص ۳۳۵)
فقا مت ام حکیم ابنۃ الحارث بن عبدالمطلب فقالت یا رسول اﷲ ماھذا المعروف الذی امرنا اﷲ بہ ان لا یعصیک فیہ فقال ان لا تخمشن وجھا ولا تلطمن خذا ولا تنتفن شعرا ولا تمزقن جیباً ولا تنتفن شعرا ولا تمزقن جیباً ولا تسوون ثوبا ولا تدعون باالویل و اثبور ولا تقیمن عند قبر فبا یعھن رسول اﷲﷺ والہ علی ھذہ الشروط۔
ام حکیم حارث بن عبدالمطلب کھڑی ہوئی اس نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ تعالٰی نے ہمیں معروف کے متعلق یہ کیا حکم فرمایا ہے کہ ہم اس معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں۔ تو مصطفی ﷺ نے فرمایا خداوندی فرمان معروف کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے مونہوں کو نہ نوچو اور اپنے رخساروں کو طمانچے نہ مارو اور اپنے بالوں کو بھی نہ نوچو اور اپنے کرتوں کو نہ ٹکڑے ٹکڑے کرو اور اپنے کپڑے سیاہ نہ بنائو اور ہائے ہائے اور ہلاکت ہلاکت نہ پکارو اور قبر کے پاس نہ کھڑی ہو۔ تو رسول ﷺ نے ان شروط پر عورتوں سے بیعت فرمائی۔
براں اے فاطمہ کہ برائے پیغمبر گریباں نے بایددرارونمے باید خراشیدو واویلا نے باید گفت کہ چشماں میگر یندودل بدرومے آید نمیگویم چیزے کہ موجب غضب پروردگار باشد۔(جلا ء العیون‘ ص ۵۸)
مصطفی ﷺ نے اپنی صاحبزادی کو وصیت فرمائی‘ مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ اے فاطمہ پیغمبر کے لئے گریبان نہیں پھاڑنا چاہیے اور منہ نوچنا نہیں چاہیے اور واویلا نہیں کرنا چاہیے اور لیکن جو کچھ تیرے باپ نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر کہا وہ کہو کہ آنکھیں روئیں اور دل میں دردآتا رہے میں وہ چیز نہیں کہتا جو پروردگار کے غضب کا سبب بن جائے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مصطفی ﷺ کی وصیت کے خلاف اگر واویلا یا مونہہ پیٹا تو اﷲ تعالیٰ کے غضب کا باعث ہے۔
عن ابی عبداﷲ علیہ اسلام قال رن ابلیس اربع رنات اولھن یوم لعن وحین اھبط الی الارض و حین بعث محمد علی حین فطرۃ من الرسل وحین انزلت ام الکتاب۔
(خصال لابن بابویہ ص۱۲۶)
حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرمایا سب سے پہلے شیطان نے چار(۴) وقتوں میں چیخیں ماریں جس دن لعن کیا گیا اس دن اس کی چیخ نکلی دوسری دفعہ جب زمین پر اتارا گیا تواس کی چیخیں نکلیں تیسرے جب مصطفی ﷺ کی نبوۃ کو ظاہر کیا گیا چوتھی جب الحمد شریف نازل کی گئی تو ابلیس کی چیخیں نکلیں۔
ودرحدیث است کہ غنانوحہ ابلیس بود برفراق بہشت وفرمودنوحہ کنندہ ببایدروز قیامت نوحہ کناں مانند سگ و فرمودنوحہ وغناقسون زنانست۔
اور حدیث میں ہے کہ نوحہ گانا بہشت کے فراق پر ابلیس کا تھا اورفرمایا مصطفی ﷺ نے قیامت کے دن نوحہ کرنے والا کتوں کی مانند نوحہ کرنیوالا ہوگا اور فرمایا مصطفی ﷺ نے نوحہ گانا عورتوں کا طریقہ ہے۔ (مجمع المعارف ص۱۶۲)
الیوم الخامس قال ابوعبداﷲ علیہ السلام ھذا یوم ولد فیہ قابیل الشقی وفیہ قتل اخاہ و دعافیہ باالویل علی نفسہ وھو اول من یبکی فی الارض من بنی آدم وکان ملعوناً۔ نفس الرحمٰن(مئولفہ محمد تقی)نوری طبرسی ص ۱۲۴) حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جمعرات کا دن یہ وہ دن ہے جس میں قابیل پیدا کیا گیا اور اس میں اس کا بھائی ھابیل قتل کیا گیا اور قابیل نے اپنے نفس کے لئے اسی دن میں ہائے ہائے میں مر گیا کہا اور وہی قابیل پہلا شخص ہے جس نے آدم علیہ السلام کی اولاد سے پہلے پہل واویلا کیا اور ملعون ہوا۔
مذہب شیعہ کی معتبر کتب احادیث وتفسیر سے (روز روشن کی طرح) ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے ماتم کرنے اور نوحہ کرنے اور واویلا کرنے کو سختی سے منع کیا ہے اور اگر کوئی ماتم کرتا ہے نوحہ کرتا ہے تواس نے حضور ﷺ سے دشمنی اور بغض کیا جس نے حضور ﷺ سے دشمنی اور بغض کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تعلیمات اسلام اور تعلیمات صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔