ہجری کیلنڈر کی خصوصیات اور سنہ ہجری کی ابتدا
سن ہجرت کی ابتداءکیسے ہوئی؟ اس کے متعلق علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ ” الفاروق“ میں یوں رقم طراز ہیں:
21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی جس پر صرف شعبان کا لفظ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کیونکر معلوم ہوا کہ گزشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ؟ اس وقت مجلس شوریٰ طلب کی گئی اور تقویم تاریخ کے مختلف پہلو زیر بحث آئے، جن میں ایک بنیادی پہلو یہ بھی تھا کہ کون سے واقعہ سے سنہ کا آغاز ہو، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے دی اور اس پر سب کا اتفاق ہو گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 8 ربیع الاول کو ہجرت فرمائی تھی، چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے لہٰذا دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سنہ ہجرت قائم کیا گیا۔ “
سن ہجرت کی ابتداءکے متعلق قاضی سلیمان منصور پوری، علامہ شبلی نعمانی سے کچھ اختلافات رکھتے ہیں ” رحمة للعالمین“ میں لکھتے ہیں ” اسلام میں سنہ ہجرت کا استعمال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جاری ہوا، جمعرات 30 جمادی الثانی 17 ہجری: مطابق 9/12 جولائی 638ءحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے محرم کو حسب دستور پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔
مزید تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ہجرت سے سنین کے شمار کی ابتداءاس سے بھی بہت پہلے ہو چکی تھی۔ ( تاریخ ابن عساکر جلد اول رسالہ التاریخ للسیوطی بحوالہ تقویم تاریخ )
اور یہی بات قرینہ قیاس سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ عرب میں قمری کیلنڈر کا رواج تو پہلے سے ہی موجود تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہجرت کا واقعہ سب سے اہم واقعہ تھا، لہٰذا اس واقعہ سے سنین کے شمار کا دستور چل نکلا تھا، البتہ عہد فاروقی تک سرکاری مراسلات میں صحیح اور مکمل تاریخ کا اندراج لازمی نہ سمجھا جاتا تھا۔ جسے ایک طرح کی دفتری خامی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس خامی کا علاج حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ بلا کر حل کر دیا تھا۔
خصوصیات
اگر ہم سنہ ہجری کا دوسرے مروجہ سنین سے تقابل کر کے دیکھیں تو یہ سنہ بہت سی باتوں میں ممتاز نظر آتا ہے، مثلا:
ترمیمات سے مبرا:
سن ہجری کی بنیاد قمری تقویم پر ہے اور قمری تقویم انسانی اختراعات سے بے نیاز اور بلند ہے، قمری تقویم میں اگر کبھی پیوند کاری کی گئی تو بھی اسے عام قبولیت حاصل نہ ہو سکی، سنہ ہجری آغاز سے لے کر آج تک اس میں نہ کوئی ترمیم ہوئی اور نہ آئندہ ہی ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے، لہٰذا اس سنہ کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شروع سے آج تک اپنی مجوزہ صورت میں چلا آتا ہے اور کسی دور میں بھی اس میں ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ دنیا کے مروجہ سنین میں سے غالباً کسی میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔
قدامت بلحاظ صحت و استعمال:
اگرچہ بعض دوسرے سنین سنہ ہجرت سے پہلے کے معلوم ہوتے ہیں لیکن سب کی باقاعدہ تدوین سنہ ہجرت کے بہت بعد ہوئی ہے۔
* یکم محرم سنہ ہجرت کو جولین کیلنڈر 16 جولائی 5334 تھا مگر حقیقت میں یہ سنہ اپنے موجودہ طریق پر سنہ ہجرت سے 989 سال بعد ہوا ہے، یہی سنہ آخر میں عیسوی میں تبدیل ہوا جس میں 1582ءتک متعدد بار ترامیم ہوتی رہی ہیں، اس آخری ترمیم کے بعد کا سال بھی ملاحظہ فرمائیے، انگلستان میں 2 ستمبر 1753 ءچہار شنبہ ( بمطابق 3 ذی القعدہ 1165ھ ) کو ترمیم کے ذریعہ یعنی 4 ذی القعدہ 1165ھ کو 14 ستمبر 1752ءبنا دیا گیا۔ ( ص 352 رحمة للعالمین جلد 2 )
* بکرمی سمت یکم محرم الحرام سنہ 1 ہجری سے 26 ساون سمت 479 تھا، جو بظاہر سنہ ہجری سے 678 سال پہلے کا معلوم ہوتا ہے مگر ہندو اور یورپین مورخین کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ سب سے پہلے سمت 898 بکرمی میں یہ سنہ بکرمی کے نام سے مشہور ہوا، اس طرح بلحاظ تدوین یہ سنہ ہجری سے 225 سال بعد مدون ہوا۔
* سنہ سکندری سنہ ہجرت سے 932 سال پہلے کا ہے مگر اپنی موجودہ ہیئت میں نوزائیدہ ہے کیونکہ یہ شروع میں کئی صدیوں تک قمری مہینوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
* ابتداءدنیا بھر میں ابتداءسنین کا حساب قمری تقویم کے حساب سے شروع ہوا تھا، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
مساوات اور ہمہ گیری:
اسلام دین فطرت ہے لہٰذا مصالح عامہ پر مبنی ہے، اسلام کی اعلیٰ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات اور ہمہ گیری بھی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہی پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں آیا کریں۔ اگر اسلام کبیسہ کے طریقہ کو قبول کر لیتا تو رمضان کا مہینہ ( ماہ صیام ) کسی ایک مقام پر ہمیشہ ایک ہی موسم میں آیا کرتا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ نصف دنیا کے مسلمان جہاں موسم گرم اور دن بڑے ہوتے تو ہمیشہ تنگی اور سختی میں پڑ جاتے اور باقی نصف دنیا کے مسلمان جہاں موسم سرد اور دن چھوٹے ہوتے ہمیشہ کے لئے آسانی میں رہتے، روزہ کے علاوہ سفر حج کا بھی تقریبا یہی حال ہے، پس مساوات و جہانگیری کا اقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہی ہو اور اسے کبیسہ جیسی انسانی اختراعات سے بھی پاک رکھا جائے۔
دنیوی اغراض کے بجائے روحانی بنیادیں:
ہجرت سے آغاز دنیا بھر کے مروجہ سنین کی ابتداءپر نظر ڈالئے تو معلوم ہو گا کہ کوئی سنہ کسی بڑے آدمی کی یا بادشاہ کی پیدائش، وفات یا تاجپوشی سے شروع ہوتا ہے یا پھر کسی ارضی یا سماوی حادثہ مثلا زلزلہ، سیلاب یا طوفان کی تاریخ سے لیکن سنہ ہجری کو یہ اعزاز شرف حاصل ہے کہ اس کا آغاز دین اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے وطن کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنا ایک بہت بڑی قربانی ہے اور ایسے واقعات میں ہر شخص کا دل بھر آتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کے وقت مکہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور مجھے پیارا لگتا ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کہیں نہ رہتا۔ ( ترمذی ) ظاہر ہے کہ ترک وطن پر انسان صرف اسی صورت میں آمادہ ہو سکتا ہے جب وہ انتہائی مجبور ہو یا کوئی عظیم مقصد اس کے پیش نظر ہو اور مسلمانوں کے لئے یہ مقصد دین اسلام کی سربلندی تھا اور ہجرت کے واقع کو سنہ ہجرت کی بنیاد قرار دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہر نئے سال کے آغاز پر یہ پیغام یاد رہے کہ انہیں اسلام کی سربلندی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرنا چاہئے۔
رسم و رواج کی حوصلہ شکنی:
کسی ملک یا علاقہ کے رسم و رواج عموما موسم سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، میلے، ٹھیلے، تفریحی سفر، گرمیوں کی چھٹیاں، موسم بہار کی تقریبات، مختلف قسم کے محاصل اور نذرانوں کی وصولیوں کے اوقات وغیرہ سب امور موسم سے وابستہ ہوتے ہیں اور موسموں کا تعلق شمسی سال سے ہے، لہٰذا جوں جوں مذہب سے لگاؤ کم ہوتا اور بے گانگی بڑھتی جاتی ہے، شمسی سال کے ساتھ لگاؤ بڑھ جاتا ہے، اسی میں پیوند کاری کر کے اسے شمسی سال کے مطابق ڈھال لیا، انتہا یہ ہے کہ آج کل مزاروں کے مجاور اور منتظمین نے بھی زمانہ جاہلیت کے پروہتوں کی طرح عرسوں کی تاریخیں بھی شمسی سال، خواہ بکرمی ہو یا عیسوی، کے مطابق کر رکھی ہیں، عرسوں کا جواز یا عدم جواز بجائے خود ایک الگ مسئلہ ہے، سردست ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ایسی تقریبات جو خالص دینی اور مقدس سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہجری تقویم کو خارج کر دیا گیا ہے، حالانکہ بات اسلامی اقدار کے منافی ہے، اسلام رسم و رواج کو بشرطیکہ وہ جائز بھی ہوں ثانوی حیثیت دیتا ہے، اس کا اولین مقصد احکامات و عبادات الٰہی اور شعائر اللہ کا صحیح طور پر متعینہ وقت پر تعمیل ہے اسی بناءپر اسلام نے قمری تقویم کو اختیار کیا جو اس کی روح کے عین مطابق ہے۔
ہفتہ کا آغاز جمعہ کے مبارک دن سے ہے:
اسلامی تقویم میں ہفتہ کو پہلا دن قرار دیا ہے، یکم محرم الحرام سنہ ہجری کو بھی یہ جمعہ تھا، جمعہ کو اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر کرنے کا دن قرار دیا گیا ہے۔ گو اس کی باقاعدہ تعطیل منانے کی پابندی نہیں تاہم جمعہ کے دن نہانے، دھونے، کپڑے بدلنے اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے تیاری کے خاص اہتمام پر زور دیا گیا ہے۔ نماز جمعہ کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر اس تقویم میں ہفتہ کی ابتداءاللہ کی یاد سے ہوتی ہے۔ جبکہ عیسوی تقویم میں اتوار کا دن، جو ان لوگوں کی عبادت کا دن ہے، ہفتہ کا دن آخری دن ہے، یعنی چھ دن کام کرنے کے بعد جب انسان تھکا ماندہ ہو تو اللہ کی طرف بھی دھیان کر لے، غالباً یہی وجہ ہے کہ مجوزہ عالمی کیلنڈر میں ہر سال اور اس کی ہرسہ ماہی اتوار سے شروع کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
ہفتہ کے دنوں کے نام اور نجوم پرستی:
اسلامی تقویم میں ہفتہ کے ایام کے ناموں میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا، جبکہ عیسوی اور بکرمی تقویم میں ہفتہ پر دنوں کے نام دیوتاؤں کی دیوتائی اور سیاروں کی فرمانروائی کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔