Pages

Monday 11 October 2021

لکھنا میرے مزار کےکتبے پہ یہ حروف مرحوم زندگی کی حراست میں مرگیا تحقیق وتحریر ازمحمدعثمان صدیقی

لکھنا میرے مزار کےکتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مرگیا
تحقیق وتحریر
ازمحمدعثمان صدیقی

واقفان حال جانتے ہیں کہ جناب محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب علیہ الرحمہ بارے بڑےمنظم انداز میں پورےیورپ کےمیڈیا میں ایک گھناؤنی مہم چلائی گئی تھی
اس پربات کرنےسےپہلےضروری ہےکہ ڈاکٹرصاحب علیہ الرحمہ کےبارےضروری ایسی معلومات عرض کروں جس سےپاکستان میں ان کی خدمات واضح ہوسکیں
محسن پاکستان جناب ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب علیہ الرحمہ 1952 میں مغربی پاکستان آئے اور 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے 'میٹالرجی' (دھاتوں کے علم) میں آپ نے سند حاصل کی
اگلی دہائی میں آپ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنےتشریف لےگئے پہلے مغربی برلن گئے اور پھر نیدرلینڈز کے شہر ڈیلفٹ میں زیر تعلیم رہے جہاں 1967 میں 'میٹالرجی' میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
1972 میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے بیلجئیم میں 'میٹالرجیکل انجینئیرنگ' میں 'لووَن' کی کیتھولک یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔ اس دوران 1964 میں انھوں نے ایک برطانوی خاتون 'ہیندرینا ریترینک' سے شادی کی جو ڈچ نژاد والدین کے ہاں جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئیں اور شمالی روڈیشیا (موجودہ زیمبیا) میں پلی بڑھی تھیں پھر نیدرلینڈز آگئیں۔
ڈاکٹرصاحب کا یہ وہ دورتھاجب آپ اپنےشعبےکے علم و عرفان کی معراج پرپہنچ رہے تھے اللہ پاک نے ارض پاک کےلئے ان سےبڑاکام لینا تھا اللہ عزوجل کی آپ کےحافظہ پرایسی کرم نوازی تھی کہ کہ کوئی کتاب لائبریری میں اگرایک بار پڑھ لیتے توواپس گھر آکر بلکل ویسی ہی لکھ لیتےحیران کن بات یہ کہ آپ ایک وقت میں ایک کتاب ہی نہیں کئی کئی کتابیں پڑھا کرتےتھے اورسب الگ الگ یاد رہ جاتیں
1972 میں ڈاکٹرعبدالقدیر خان رحمہ اللہ نے 'فزیکل ڈائینامکس ریسرچ لیبارٹری' میں یورینکو(URENCO) کی ڈچ شراکت دار ذیلی ٹھیکدار کمپنی میں ملازمت کی
 برطانیہ، جرمنی اور ڈچ (ہالینڈ) کی کمپنیوں کے اشتراک سے یورینکو(URENCO) وجود میں آئی تھی جسے 1971 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ 'سینٹری فیوجز' (مختلف اجزا کو الگ کرنے کے عمل) کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کی تیاری اور تحقیق ممکن ہو۔
یہ 'سینٹری فیوجز' انتہائی تیز رفتار سے کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو نچلی سطح کی سکیورٹی کلیئرنس دی گئی لیکن ذہانت اورپھرتی کی وجہ سےانھیں 'سینٹری فیوج ٹیکنالوجی' کی مکمل معلومات تک رسائی حاصل ہو گئی۔
آپ نے مشرقی ہالینڈ کے شہرایل میلو میں قائم ڈچ پلانٹ کا بھی متعدد مرتبہ دورہ کیا۔ آپ کو کئی زبانوں فارمولوں پرمہارت تامہ حاصل تھی چناچہ اس ملازمت میں آپ کی ایک ذمہ داری جدید ترین سینٹری فیوجز سے متعلق جرمن دستاویزات کا ڈچ زبان میں ترجمہ کرنا بھی شامل تھا۔
17 ستمبر 1974 کو ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب علیہ الرحمہ نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا جس میں آپ نے ایٹم بم بنانے کے لیے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کیں۔ اس خط میں ان کی رائے تھی کہ سینٹری فیوجز کو استعمال کرکے جوہری بم بنانے کا راستہ پلوٹونیم (جس سے پاکستان پہلے ہی بم بنانے کی کوشش کر رہا تھا) کے ذریعے بم بنانے سے بہتر ہے کیونکہ اس میں 'جوہری ری ایکٹرز' اور 'ری پراسیسنگ' ہوتی ہے۔
اگست 2009 میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ڈاکٹرصاحب نے بتایا تھا کہ میں نے ستمبر 1974 میں بھٹو کو خط لکھا کہ میرے پاس مطلوبہ مہارت ہے۔ بھٹوصاحب کا جواب بہت حوصلہ افزا تھا، دو ہفتوں بعد بھٹومرحوم نے مجھے جوابی خط لکھا جس میں مجھے پاکستان واپس آنے کے لیے کہا میں جب واپس آگیا تومیں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں منیر احمد خان اور ان کی ٹیم کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور ہالینڈ واپسی سے قبل ان سے 'انفراسٹرکچر' کی تیاری کے لیے کہااورمل جل کے کام شروع ہوگیا۔
ابتدا میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے پاکستان اٹامک انرجی کمشن (پی اے ای سی) کے ساتھ کام کیا لیکن ادارے کے سربراہ منیراحمد خان سے ورکنگ ریلیشن شپ نہ بن سکی چناچہ 1976 کے وسط میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ نے 'انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری' (ای آر ایل) قائم کی تاکہ یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جائے۔
مئی 1981 میں کہوٹہ میں قائم کردہ اس لیبارٹری کا نام 'ڈاکٹراے کیوخان ریسرچ لیبارٹری کے آر ایل' رکھ دیا گیا
اب منیراحمدصاحب اورڈاکٹرصاحب دونوں اپنےاپنےطوراس عظیم مشن کوپایہ تکمیل پہنچانےمیں محوہوگئے
ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب نے جرمن نمونے کے مطابق سینٹری فیوج کا ابتدائی نمونہ تیارکیا اور ضروری اجزا کی درآمد کے لیے پرزے فراہم کرنے والوں کی فہرست استعمال کی۔ پرزے فراہم کرنے والوں میں دیگر کے علاوہ سوئس، ڈچ، برطانوی اور جرمن کمپنیاں شامل تھیں۔
پاکستان ڈیفنس جرنل کی 2000 میں ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ’پی اے ای سی اور کے آر ایل نے یکساں طورپر ہدف کو طے کیا
ڈاکٹرعبدالقدیرخان علیہ الرحمہ کو دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔
پہلے چودہ اگست 1996 کو صدر فاروق لغاری اور پھر 1998 کے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انھیں اس اعزاز سے نوازا۔ اس سے قبل 1989 میں انھیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا
ڈاکٹرصاحب دینی لحاظ سےبھی بڑی عظیم سوچ کےحامل تھے بڑےعاشق رسول تھےکئی مساجد بنائیں سلطان شہاب الدین غوری رحمہ اللہ کامزارتعمیرکروایا امام اہلسنت حضرت احمدرضابریلوی علیہ الرحمہ کےمتعقدتھےبرملا انکی تعریف فرماتے رہے
فلاح وبہبودکابھی بہت احسن اندازسےمنظم کام Schet نامی تنظیم کےنام سےکیا۔
سیاسی پارٹی بنائی الیکشن میں حصہ لیامگرپٹواریت یوتھیت زدہ گندی سیاست کےحاوی ہونےکی وجہ سےسیاست میں پنپ نہ سکے
یہ توتھیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان علیہ الرحمہ بارے معلومات اب کرتاہوذکراس منظم و مذموم سازش کا جوان کےخلاف ہوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان علیہ الرحمہ کی زندگی کااہم حصہ ہالینڈمیں گزرا ہالینڈ ہی کی حکومت نے ایٹمی توانائی بارےاہم معلومات چرانے کے الزام میں جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان علیہ الرحمہ پر ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیاپروپیگنڈہ مضبوط تھامگریہ وارناکام ہوکےاپنےہی ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کےڈاکٹرصاحب کی ہی فیلڈکے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تومحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب علیہ الرحمہ کو بَری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے زوردیاکہ جن معلومات کی بنیادپریہ مقدمہ داخل کیا گیا تھا وہ عام سائنسی کتابوں میں محض افسانوی انداز میں موجود ہیں ـ
چناچہ ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے محسن پاکستان جناب ڈاکٹرعبدالقدیر صاحب علیہ الرحمہ کو باعزت بری کردیا۔
یہ 1984 کا دورتھا انڈیا نے پوکھران میں ایٹم بم کاتجربہ کیاتو ہرپاکستانی کی نظرڈاکٹرصاحب پر ٹہری ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب علیہ الرحمہ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں میں ان دنوں صدرضیا کوملا تومیں نےکولڈ ٹیسٹ کامیابی بارے مفصل انداز میں بتایا ضیا نے مجھے گلے لگاکرکہا کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوگیاہے تو میں نے ضیا کو کہا آپ اگر کہیں توہم ایک ہفتے میں ایٹم بم کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ مگرتجربہ نہ کروایاگیا
آمریت کا دورتھا انڈیابڑھکیں مارتا پھرااوریہاں ہم دنیا کےسامنے دبادئیےگئی 
قارئین آپ پاکستان کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوئی بھی تاریخ پڑھ لیں ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب علیہ الرحمہ کاکردار ان کا نام نامی کسی نہ کسی طور آپ کوضرور ملےگا مگر میں حیران ہوتا ہوں جب تک پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تھا تب تک کوئی کہہ ہی نہیں سکا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کا ایٹم بنانے میں کوئی کردار نہیں جویورپی پروپگینڈے سے مرعوب نظرآتے ہیں ان کو سوچناچاہیے کہ پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے نام سے ہی پھرلیبارٹریاں کیوں بنائی گئیں تھیں کوئی اوراگران کےعلاوہ پاکستان کےایٹمی پروگرام کا خالق و موجد ہےتو اس کے نام پرکیوں یہ ادارے نہیں ؟ (جبکہ یہاں توچورڈاکوسیاست دان تک کے ناموں پرسرکاری ہاسپٹل، پارک تک کےنام رکھناآسان ہے) یاجوبےہودہ الزامات ڈاکٹر صاحب پرلگائے گئےکیوں ان کے نام سےمنسوب اداروں کےنام تبدیل کرنے بھی جرآت کسی سےہوسکی؟حتی کےمشرف تک سےبھی۔توڈاکٹرصاحب کانام ہٹاکےتودیکھو 
سکروٹنی میں ڈاکٹر صاحب ہرطرح بےقصوراورغیرمتنازعہ ہی ثابت ہوئےتوان مبغضین ڈاکٹر عبدالقدیر علیہ الرحمہ کی زراسی بھی کوشش کامیاب نہ ہوئی ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر صاحب کو سازش کے زریعے سائڈ لائین کردیا گیا۔ ۔سوچئیے کیسے اور کیوں 
مشرف جس نے امریکہ کو پاکستانی بیچنے کااعتراف جرم اپنی کتاب [In The Line Of Fire]
 میں کیا ہے یہ اسی کادور تھا جس میں ڈاکٹر صاحب کو بھی متنازعہ کیا گیا(آگے چل کرتفصیل عرض کروں گا)  اشارہ یہ دےرہاہوں کہ پاکستان کو ایٹم بم کے تجربات سےروکنے کی جو آفردی گئی کیا ڈاکٹر صاحب کو متنازعہ کرنے کےلئے تو مشرف کو بھی نہ دےدی گئی؟ سوچئےزرا ۔  ۔ 
 اورکیابعیدکےوہ قبول کربھی لی گئی ہو۔ ۔
ایٹمی دھماکوں کےبعد یورپ کی جانب سےپابندیاں عائدکی گئیں تب ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کو بھی عتاب کا شکار بنانا کیاگیا۔
اس کاپہلامظاہرہ جب ہواجب ڈاکٹر صاحب اوران کے ساتھی پاکستانی ایٹمی سائنسدانوں کے اعزاز میں اسی حوالے سےمنعقدہ تقریب میں مہمانان گرامی کی خصوصی نشتوں کی پہلی قطار سےڈاکٹرعبدالقدیرصاحب کا نام نکال کر پیچھے عام نشتوں میں ڈال دیاگیا
ایٹم بم کےتجربہ کرنےکےلئےمتعین ٹیم کےایک دوسرے پاکستانی سینیر سائنسدان ڈاکٹرثمرمبارک مند صاحب جواس سےپہلےمنظرعام پرنہ تھےجو ایٹمی دھماکوں کےلئے چاغی میں ٹنل وغیرہ کھودنےاورانتظامی امورکی نگرانی کرنے پر معمور تھےاور آپریشن بنام ”چاغی ون“ کےسربراہ تھےکوڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کے متبادل کےطورپراچانک فرنٹ مین بنادیاگیااورمرکزی سائنسدان انہیں ہی قراردیاجانےلگاجبکہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب انہی کےساتھ ایٹمی دھماکوں کے تجربات ”ٹیم چاغی ٹو“ کےسربراہ تھے اگرکوئی کرداران کانہ تھاوہ ٹیم چاغی ٹوکےسربراہ آخرکیوں بنائےگئے؟
جنرل قدوائی کی ڈاکٹرعبدالقدیر خان صاحب بارےصحافیوں کوبریفنگ دینےاورخبریں چلوانےسےسائنسدانوں میں آپس میں پھوٹ ڈلوانےمیں مشرف کاسب سےبڑاہاتھ تھا
ڈاکٹرعبدالقدیرصاحب کے بارے نجی محافل سے میڈیاتک ڈاکٹرثمر مبارک منفی گفتگو کرتے پائےگئےاوربڑے زورشور سے ان کاڈاکٹر صاحب بارے مخالفانہ موقف قومی اخبارات کے فرنٹ صفحات پرشائع کیایاکروایاجاتارہا۔ ۔
گویادونوں ڈاکٹرز میں خلیج ڈال کرتقسیم کردیاگیا
یورپی حکمرانوں اوریورپی میڈیا کےزریعے ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کے بارے مختلف نوع کے الزام (یورینیم کی سمگلنگ سمیت) لگاکر بھرپورپروپیگنڈہ کیاگیا
سب سےمنظم اورمضبوط واردات ایسے ڈالی گئی کہ ان دنوں ایران زوروشورسےجوہری میدان میں تیزی سےترقی کررہاتھاتوآئی اے ای اے نے ایران کے ایٹمی ری ایکٹرکادورہ کرنےکادباؤ دیاعالمی دباؤ بھی اس ادارےکی پشت پرہونےکی بدولت بالاآخرایران نے دھمکیوں کےبعداجازت دےدی وہاں معائنہ کےبعد ایٹمی سینٹری فیوجیز دیکھ کرآئی اےای اےنےفوراالزام عائد کیاکہ یہ ڈاکٹرعبدالقدیراحمد خان صاحب کے1970 کےڈیزائنز ہیں آئی اے ای اے کے مطابق یہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب ہی کہ فراہم کردہ ہیں چناچہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب پرامریکہ کی جانب سےپابندیاں عائد کرنےکےلئےمنظم اورباقاعدہ سرکاری سطح سے پریشردیناشروع کردیاگیاحتی کے انہیں امریکہ نےاپنےحوالےکرنےکامطالبہ کردیا
قارئین یہاں یہ بات بتاتاچلوں کہ امریکہ سمیت کوئی ملک ایسا نہیں جس نے جوہری پروگرام میں کسی دوسرے ملک یا متعلقہ فردکی مددنہ لی ہویاخریدوفروخت نہ کی ہو حتی کہ چوری تک سےگریزنہ کیاہویابدمعاشی نہ کی ہومگر کمال کی بات ہے کہ آج تک کسی سائنسدان کوعتاب کاایسے نشانہ نہ بنایاگیاجیسے ڈاکٹرعبدالقدیراحمدخان صاحب کو ۔ ۔یہ بھی آپ ہی سوچئےکہ کیوں ایسا ہوا۔ ۔ 
آگے چلیں ۔  ۔ 
2003 کاسال آگیاتھامشرف حکومت کےاس وقت کےمنہ پھٹ وزیراطلاعات شیخ رشید احمد جو ایٹمی دھماکوں کے وقت خودفرماتےہیں کہ میں تواس دن ملک سے فرار ہوگیا تھا نےڈاکٹرعبدالقدیراحمد صاحب کے خلاف گھٹیا پن کی تمام حدیں پارکردیں۔
پرہجوم پریس کانفرنس میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب علیہ الرحمہ کےبارے ہرزہ سرائی کی کہ ”جس نے گاجریں کھائی ہیں اس کے پیٹ میں درد توہوگاہم ڈاکٹرعبدالقدیراحمد خان سےحساب لیں گے“
سرکاری چینل پی ٹی وی پر پرویز مسلط اورڈاکٹرعبدالقدیراحمدخان صاحب کی ان عالمی سطح پرلگائے جانے والے الزامات  کے حوالے سےملاقات کی ویڈیوسرکاری ٹی وی پردکھاتےہوئےڈاکٹرعبدالقدیر
احمدخان صاحب کومعذرت کرنےکی آڈیوتک عام عوام کو سنائی گئی۔
اسی پربس نہیں ڈاکٹر عبدالقدیراحمد خان صاحب علیہ الرحمہ کو لوکل اسٹبلشمنٹ کا پریشر دےکر قوم سےخطاب کی صورت معافی بھی منگوائی گئی انہیں ایسےپیش کیاگیاجیسےیہ کوئی قوم کےمجرم ہوں
مصدقہ زرائع بتاتے ہیں کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان صاحب کچھ سیکنڈ قبل تک بھی اس معافی والے تحریری بیان کوسرکاری میڈیامیں پڑھنے سےسختی سےانکار کرتےرہےمگرانہیں مشرف اوراس کےحواریوں نےجس میں چوہدری شجاعت سرفہرست تھا مجبور کردیا۔چوہدری شجاعت اوراس وقت کےوزیرقانون ایس ایم ظفر نےکہاآپ صرف یہ معافی نامہ پڑھ دیں اس کےبعدآپ کوکچھ نہیں کہاجائےگا
تاریخ حیران تھی قوم کامحسن اپنی ہی قوم پر احسانات کرکےبھی مجرم بنا ڈھلکے کندھوں کپکپاتے ہونٹوں لرزتی آوازسےمعافی مانگ رہاتھا
اور اصل مدعا جاننےوالےڈاکٹرصاحب کو ایسے بےبس مجبور دیکھ کردھاڑیں مارمارکےرودئیےتھے
آمریت کادوردورہ تھاتوقومی اخبارات کوپریشردیاگیاکہ ڈاکٹرصاحب کےبارے سخت الفاظ بولےاورلکھےجائیں
پہلی بارڈی بریفنگ کی اصطلاح ڈاکٹر عبدالقدیر خان علیہ الرحمہ کےلئےاستعمال کی گئی کہ ڈاکٹرصاحب کی ڈی بریفنگ کی جائےگی
بعد میں پرویزمسلط نےکئی جگہ انٹرویوزمیں تمسخرانہ انداز میں کہاکہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان تومیرےگھٹنوں کوہاتھ لگاکرروپڑےتھےمیں نےتب انہیں معاف کیا۔
امریکہ کوفوجی اڈےدینے، عافیہ صدیقی سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کوامریکہ کےحوالےکرنےوالےسودےباز کاذب وغاصب پرویزمسلط نےیہ دعوی بھی کیاکہ یہ تومیں ہی ہوں جس نےڈاکٹرعبدالقدیرخان کوامریکہ سےبچالیا۔ ۔
اس سب کو لےکرانڈین میڈیانے پاکستان اور محسن پاکستان کابہت مذاق بنایا ڈاکٹر صاحب کی معافی والی ویڈیوانڈین میڈیامیں جشن کےطور باربار چلائی گئی 
جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا(واضح رہےیہی ممالک امریکہ دشمن ہیں) منتقلی کالکھالکھایابیان پڑھ کرجونہی ڈاکٹرصاحب فارغ ہوئےچند فوجی انہیں اٹھاکرلےگئےمشرف حکومت کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان علیہ الرحمہ کوگرفتارکرکےاسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
2004 سےجاری نظربندی خاتمے کےاحکامات فروری سنہ 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نےجاری کیے اور کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر ایک آزاد شہری ہیں۔ عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند تھے اور ہر وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت سمیت ان کے بنیادی حقوق پر عمل درآمد کے لیے 23 دسمبر2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا۔ ایڈووکیٹ زبیر افضل رانا کے توسط سے عدالت عظمی میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق، معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند پر کم  یا سلب نہیں کیے جاسکتے۔
ڈاکٹرعبدالقدیر خان علیہ الرحمہ نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں اپیل دائر کی تھی جس میں ان کی اسی طرح کی ایک درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی اقدامات کا معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب علیہ الرحمہ نے اپیل میں کہا کہ میری 84 سال عمر ہے اور اکثر بیمار رہتا ہوں، میرے ساتھ جو سلوک کیا جارہاہے وہ کےآر ایل کے کسی سائنسدان کے ساتھ نہیں کیا گیا، قانون کے مطابق ہر شہری کو آزادانہ نقل وحرکت ،اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔
ایٹمی سائنس دان نے کہا کہ مجھے کینسر کا مرض ہوا ایسی حالت میں پابندیاں جان لیوا ہو سکتی ہیں، حکومتی ادارے میرےبارےگمراہ کن پروپیگنڈا کررہے ہیں ، میری سکیورٹی کا یہ مطلب ہرگز نہیں نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی جائے
قبل ازیں گزشتہ سےپیوستہ برس ماہ جولائی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نےموجودہ پی ٹی آئی حکومت کے نام خط لکھا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے چند غیرقانونی اور بلاجواز رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ حسب معمول حکومت کی طرف سے جھوٹ کا پلندہ پیش کیاجارہا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے کہا کہ میں اس وقت انگلینڈ، فرانس، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ، مصر، سوڈان، نائجیریا، مالی (ٹمبکٹو)، تھائی لینڈ، جاپان، روس، ازبکستان، قازقستان، مراکو، کینیا، شام وغیرہ کے سفر کر رہا تھا۔ اس وقت ان کو میری جان کی فکر نہ تھی اور نہ ہی کسی نے مجھے مارا۔ نہ ہندوستانیوں نے، نہ امریکنوں نے اور نہ ہی اسرائیلیوں نے، اس وقت میرے ساتھ میرے رفقائے کار ہوتے تھے نہ گارڈ، نہ بندوقیں، نہ فوجی، نہ رینجرز۔حتی کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد تک میں دنیا میں سفر کرتا رہا، اس وقت سب کو علم تھا کہ میں کون ہوں. اوراپنےبھی جانتےہیں کہ میں غدارنہیں
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا کہ اب جبکہ میں عمررسیدہ ہوچکا ہوں، چلنا پھرنا مشکل ہے، ملک میں ہی رہوں گا باہر جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں ہے تو اس دروغ گوئی سے مجھے پریشان کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت ان کو اپنی بدمعاشیوں کے راز فاش ہونے کا خطرہ ہے مگر میں محب وطن پاکستانی ہوں، میں نے اور میری بیوی بچوں نے ملک کی خاطر خاندانی زندگی قربان کر دی ہے۔ میں جان دے دوں گا ملک سے کبھی غداری نہ کروں گا۔ میں ایک عام انسان کی طرح اپنی بقیہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔
مگراس خط کوارسال تین سال ہوئے عمران خان حکومت سےانہیں انکی وفات تک کوئی جواب نہیں دیاگیا نہ ہی کوئی سہولت ورعایت حضرت ڈاکٹرصاحب کو حاصل ہوسکی۔ حتی کہ عدالت میں بھی پیشی کرتےعمران حکومت روایتی تاخیری حربےدیتی ہے یامحض زچ کرتی رہی ہے۔
عدالتی کاروائی پرسرکاری وکیل کا مطالبہ تھاکہ کاروائی ان کیمرہ کی جائے جس پرججز نے کہا کہ ہم ڈاکٹرصاحب کااحترام کرتے ہیں ہم نے کون سا ان سے بم کے فارمولے پوچھنےہیں جو ایسے مطالبات کئے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کوملزم کی حیثیت دےکر منظم پروپیگنڈے کےزریعےآخری دنوں تک عتاب کا شکار بنایاجاتارہا
ڈاکٹر عبدالقدیر اپنی مرضی سے لوگوں سے ملنے اور ایک آزاد زندگی گزارنے جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے آخری دم تک عدالتوں سے ریلیف کے منتظر ہی رہے۔
اس غیراعلانیہ نظربندی کے خلاف ڈاکٹر خان نے مختلف اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں۔ آخری درخواست پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں دو سال قبل یعنی سنہ 2019 میں دائر کی گئی تھی جس پر نہ تو کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی ان کے وکلا کو سکیورٹی کے نام پر ان سے ملنے کی اجازت تک دی گئی۔
 ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا شیخ احسن الدین اور توفیق آصف کے مطابق جب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے اس وقت سے اب تک اس کی صرف پانچ سماعتیں ہوئی ہیں جبکہ پہلی سماعت درخواست دائر کرنے کے نو ماہ بعد ہوئی تھی۔
عدالت میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکلا نے ڈاکٹرصاحب کے گھر کےبارے کرتے ہوئے کہا کہ جس جگہ ان کے مؤکل کو سکیورٹی کے نام پر نظربندرکھاگیا ہے اس علاقے سے بہت کم لوگوں کو گزرنے کی اجازت ہے کوئی وہاں سے دو بار گزر جائے تو وہاں پر موجود سکیورٹی کے اہلکار اسے پکڑ لیتے ہیں اور اس سے تفتیش شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے لیے ادھر آئے ہیں۔
ڈاکٹرصاحب کی بڑھاپے کی عمر میں انھیں اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے کی ضرورت ہے لیکن انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی
اس سب پرعدالت نےکوئی خاص ردعمل نہ دیابلکہ حالت یہ ہےکہ ایک سال کے بعد دوبارہ سماعت کے لیےتاریخ مقرر کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست کی چوتھی سماعت کے دوران متعلقہ حکام سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے گذشتہ سات سال کے دوران ہونے والی سب ملاقاتوں کا ریکارڈ طلب کیا تھا لیکن متعلقہ حکام کی طرف سے ایسا کوئی ریکارڈ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے وکلا کی طرف سے ذمہ داروں کے خلاف عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن عدالت نےمحض متعلقہ حکام کو ایک ماہ میں دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دینےپراکتفا کیا۔
اس کیس کی پانچویں سماعت جو کہ ڈاکٹرصاحب کی زندگی کی آخری سماعت ثابت ہوئی، 15 ستمبر2021 کو ہوئی عدالت نے یہ سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کی اوربالائےستم اگلی تاریخ تک نہیں دی گئی تھی
یوں ڈاکٹرصاحب غیراعلانیہ نظربندی میں انصاف مانگتے دنیاسےچلےگئے۔
زندگی کےآخری ایام میں موجودہ حکمرانوں کی محسنِ پاکستان ڈاکٹرصاحب سے بےاعتنائی روایتی بےحسی اورپھر شیخ رشیدجیسےمنافق کی ڈاکٹرصاحب کےجنازےکےمعاملات میں بدانتظامی ڈاکٹرصاحب اوران کےجنازےکےشرکاکےلئےایک اور اذیت تھی۔
آخری عمرنظربندی سہتےسہتےمظلوم ڈاکٹرصاحب جب دنیاکی قیدسےآزادہوئےتو سرکاری اعزازکےساتھ دفنائےگئے
حکمرانوں کےوہی گھسےپٹے روایتی بیانات ڈاکٹرصاحب کےدکھوں تکلیفوں اوران سےکی گئی زیادتیوں کاہرگزازالہ نہیں ہیں 
آپ اب ہرقیدوبندسےآزادہیں ہمارے دلوں میں آبادہیں اوراب مگران کےمخالف اپنےپرائے اپنےہی ضمیرکےسامنےقیدہیں 
میں سوچ رہاتھاکہ فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کی ایک رپورٹ کےمطابق پاکستان کےپاس الحمدللہ 2017 تک 140 ایٹم بم موجود ہیں جبکہ انڈیاکےپاس 130
 اگرگنتی میں بھی جیتناہےتوبھی ہم انڈیاسےاس محاذ میں آگےہی ہیں اوراس سب میں ڈاکٹرعبدالقدیر خان صاحب کااہم کردارہے
آپ کی عزت عام پاکستانی کرتا رہے گا پاکستان آپ کی بدولت دفاعی محاذپرمضبوط ہے۔
ڈاکٹرصاحب ایسی پٌربہاراورباوقارشخصیت کوپاکستانی غیرت مندقوم ہمیشہ فخرسےیادرکھےگی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔