*رافضیوں کا اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب*
"عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا."
شیعہ حضرات اکثر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی ٹھہرے۔
اس حدیث میں جس باغی گروہ کی بات کی گئی ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کیا اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بالکل مراد نہیں اور نہ ان کا نام موجود ہے حدیث میں، اسی طرح کے خارجی لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں بھی موجود تھے جب ایک شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو خوشخبری ہو میں نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ (جو جنگ جمل میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے لشکر میں موجود تھے) کو قتل کر دیا ہے تو اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں تجھے جہنمی ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں کیوں کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تو حدیث رسول تھی کہ جو ان کو قتل کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ اب جس طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی الزام نہیں جہنمی ہونے کا (کیوں کہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں سے تھا) اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا۔
اسی طرح سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے اور ان کے قاتلین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر میں شامل تھے جنہیں حدیث پاک میں منافقین فرمایا گیا ہے.. حدیث پاک ملاحظہ کریں
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عثمان! اللہ تعالٰی آپ کو خلافت کی قمیص پہنائیں گے، اگر منافق آپ سے وہ قمیصِ خلافت چھیننا چاہیں تو آپ نے اسے اتارنا نہیں، یہاں تک مجھے آ ملو(شہید ہو جاؤ)۔پھر فرمایا : عثمان! اللہ تعالیٰ آپ کو خلعت ِ خلافت پہنائیں گے، اگر منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو آپ نے شہید ہونے تک اسے نہیں اتارنا۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔"
(مسند الامام احمد : 24566، وسندہ صحیح)
نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے واضح طور پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو فتنہ کے وقت حق پر ہونے کی بشارت ارشاد فرمائی تھی اور شہادت کو انکے لیے بطور اعزاز ارشاد فرمایا تھا.. سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے دی گئیں انہیں بشارتوں کی وجہ سے جب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلین اور باغیوں کو جو مدینہ کی حرمت پامال کرنے کے بھی مجرم تھے اور مدینہ منورہ کی حرمت پامال کرنے والوں پر حدیث میں لعنت بھیجی گئی ہے، انہیں باغیوں اور قاتلوں کو سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے جھنڈے تلے دیکھا تو غلط فہمیوں اور بدگمانیاں کا پیدا ہونا لامحالہ لازم تھا جو کہ جنگ کی صورت اختیار کر گیا.
صحابی رسول حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر کے مقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے کیا فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں
"حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کے لشکر میں تھے پس کعب بن مرہ بہزی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فلاں چیز نہ سنی ہوتی تو آج میں اس مقام پر کھڑا نہ ہوتا پس جب انہوں (حضرت معاویہ) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا اور کہا : ایک دن ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ وہاں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیدل گزرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور بالضرور اس جگہ سے جہاں میں کھڑا ہوں ایک فتنہ نکلے گا، یہ شخص اس دن (مسند خلافت پر) ہو گا جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا پس عبداﷲ بن حوالہ ازدی منبر کے پاس سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تو اس آدمی کا دوست ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! ابن حوالہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا میں اس مجلس میں موجود تھا اور اگر میں جانتا ہوتا کہ اس لشکر میں میری تصدیق کرنے والا کوئی موجود ہے تو سب سے پہلے یہ بات میں ہی کر دیتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 52 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 316، الحديث رقم : 753، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 89، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 3 / 66، الحديث رقم : 1381.
جس طرح ان باغیوں اور قاتلوں جن کو احادیث میں منافق اور موجب لعنت فرمایا گیا کہ سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر میں ہونے کی بنا پر سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کو معتوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ معاذاللہ ناحق کہا جا سکتا ہے کیونکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم خلیفہ برحق تھے اور اپنے اس مؤقف پر بھی حق پر تھے کہ باغیوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں قصاص لینے پر باغی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد کسی اور بڑے نقصان کا موجب بن سکتے تھے اس لیے قصاص لینے کو مؤخر فرمایا...
جبکہ مقابل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فوری قصاص لینے کے اپنے مؤقف کو حق سمجھنے کے باوجود خطائے اجتہادی پر تھے مگر اجتہادی خطا مطلقاً خطا یا گناہ نہیں ہوتی..
دل تھام کر سوچیۓ کہ اگر اس مقام پر اہلسنت کا مؤقف نہ اپنایا جائے اور اپنی عقلوں کے گھوڑے دوڑا کر رافضیوں یا ناصبیوں کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بدگمانی کی جائے تو کیا ہم اپنا ایمان محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ اگر ہم کذاب راویوں کی جھوٹی کہانیوں پر اعتماد کر کے ایک طرف کو بدگمانی پیدا کر لیں تو سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم سے بدگمان ناصبیوں کو کس منہ سے روکیں گے جو ان کے لشکر میں موجود باغیوں کے سبب انہیں معتوب کرتے ہیں معاذاللہ ثم معاذاللہ.
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہمیں نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے جو حکم ارشاد فرمایا ہے ملاحظہ کریں
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے. ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو.‘‘
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366.
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ
وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه
کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج 3 - الصفحة 540
ترجمہ
حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور فرمایا :آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلان عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا۔
اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو محض خلافت سے کوئی غرض نہیں تھی ان کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکتوب میں بھی موجود ہے۔
وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان
کتاب نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - مکتوب 58 - الصفحة 448
ترجمہ
ہمارے معاملے کی ابتداء یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب کہ بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تھا۔
دوسری بات یہ کہ بخاری شریف میں فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ الفاظ کہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کے صاحب ایمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کر کے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تائید مزید فرما دی۔
یہ حدیث شیعہ کتاب كشف الغمة میں بھی موجود ہے
روى عن أبي بكرة قال بينما رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب إذ صعد إليه الحسن فضمه إليه وقال إن ابني هذا سيد وان الله عله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظمتين
کتاب كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج 2 - الصفحة 320
ترجمہ
ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے دوران یکا یک امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ منبر پر چڑھ گئے تو آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور الله اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا
ذرا دل سے پوچھیئے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام ایک صلح کی بشارت ارشاد فرمائیں اور یہ بھی فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ صلح کروائے گا تو کیا کوئی صاحب ایمان نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کی بشارت اور اللہ تعالیٰ کے صلح کروانے کو خیر و برکت کے بجائے ظلم و ستم کی نہ ختم ہونے والا سلسلہ سمجھ سکتا ہے؟
ہاں اس صلح کو خیر و برکت والا سمجھنے کے لیے ایمان کی شرط لازمی ہے. اس صلح کے بعد مسلمانوں میں کم از کم بیس تک ہر طرح کی خانہ جنگی رک گئی، بے شمار فتوحات ہوئیں، مسلمانوں میں خوشحالی آئی.. امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما بذات خود فتوحات میں شامل ہوئے.
تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی ٹھہرے تو پھر امام حسن و امام حسین (مرضی اللہ تعالی عنہ کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نہ صرف بیعت کی بلکہ انہیں مسلمانوں کا امیر بھی بنا دیا کیا امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، اور اگر کوئی رافضی کہے کہ کر سکتے ہیں تو پھر امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یزید کی بیعت نہ کرنا اور سارا گھر لٹا دینا چہ معنی دارد؟... کیا یہ حدیث امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم نہ تھی جو ان کی بیعت کرلی اور کیا اس حدیث کا مفہوم آج کل کے شیعہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ؟ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر دلائل اور بھی ہیں لیکن اختصار کے طور پر ایک حوالہ رجال کشی کا دے دیتے ہیں
امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو
وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام
کتاب اختيار معرفة الرجال (رجال الكشي) - الشيخ الطوسي - ج 2 - الصفحة 104
ترجمہ
ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن رضی اللہ تعالی عنہ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے وہ اٹھے اور بیعت کی پھر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کہا آپ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو اس نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ میرے امام ہیں۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)
جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477)
کچھ تواریخ کے مطابق سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قسطنطنیہ کی طرف روانہ کیے گئے لشکر میں بھی شرکت فرمائی..
یزید پلید کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت
"اہل عراق حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو تمہارے مقابلے میں لا کر چھوڑ دیں گے . جب وہ تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار ، بڑے حق دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ہیں ۔" (تاریخ طبری ج:٥،ص:١٩٦)
(افسوس صد افسوس وہ ازلی بدبخت پاس نہ رکھ سکا)
چوتھی اہم بات یہ کہ جس کو خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ باغی اور منافق نہ کہیں انہیں آج کل کہ شیعہ کس منہ سے کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے
شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے
جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه
إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق
کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 93
ترجمہ
امام جعفر عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدِمقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی لشکر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لیئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا
جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا
کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 94
ترجمہ
امام جعفر صادق عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی....... واللہ اعلم
*فیصلہ مولا کائنات سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خود فرما دیا*
صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا، اور تاکید کی کہ کوئی بھی شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خط میں لکھا کہ''ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ رضی اللہ عنہ )کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہےکہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہے، ہمارا اوران کانبی ایک ہے، ہماری اور ان کی دعوت ایک ہے، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدیق کرنے میں دونوں کا برابر ہیں ،صرف خونِ عثمان کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان میں اختلاف ہوااور ہم اس سے بری ہیں لیکن معاویہ میرے بھائی ہیں ( نہج البلاغہ۱۵۱)اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا''قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ''ہمارے اور ان کے لشکر کے مقتولین جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما ذکر فی الصفین ، حدیث نمبر ۳۷۸۸۰)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔