Pages

Sunday 21 May 2017

نعت کا تقدس اور نیا فتنہ

😥نعت کا تقدس اور نیا فتنہ

نعت خوانی شروع ہی سے  تمام خانقاہی 'دینی اور میلاد محافل کا حصہ رہی ہے
چند ہی سال قبل پوری رات یہ محافل جاری رہتی تھیں مگر مجال ہےکہ ہزاروں سامعین میں سے کوئی اٹھ کر چلا جاۓ-

منتظمین محفل کے آخر میں تقریر کے لئے عالم دین کا خطاب بھی کرواتے تھےجس سے دلوں کو مزید تازگی ملتی-

پھر بعد میں وقت نے تیزی کے ساتھ ایک کروٹ بدلی اور اب میلادیہ جلسوں کی بجاۓ رات بھر محافل کا دستور چل نکلا آہستہ آہستہ منتظمین نے عوام کو اپنے رنگ میں ڈھال کر خطباء اور مشائخ سے کنارہ کشی اختیار کر لی-

فقط اور فقط شب بھر نعت خوانی کا دستور چل نکلا اور ایسا چلا کہ ہمارے ازہان ماضی کی پاکیزگی فکر اور عصر حاضر کی جمالیاتی چکا چوند میں الجھ کر رہ گۓ-

پھر آہستہ آہستہ محافل نعت تیزی سے یوں پھیلی کہ جیسے مذہبی نہیں بلکہ کسی ثقافتی تقریب کا انعقاد ھو رھا ہے-

اور اب تو نعت خوانی کی محافل کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی وقت میں شہر میں دس، دس مقامات پر محافل نعت ہو رہی ہیں.

  یہ ہونا تو ایک انتہائی خوش کن  امر چائیے تھا لیکن جب میں نے مشاہدہ کیا تو یہ دیکھ  اور سن کر انتہائ دکھ ھوا کہ ایک نعت خواں دوسرے نعت خواں کو سننے کا روا دار نہیں ہے-

محافل میں نعت خواں دروغ گوئی سے کام لینے لگےکہ ہمارے ساتھ کوئ ایمرجنسی ہو گئ ہے اس لئے شروع میں پڑھا دو -

در اصل کہانی نذرانے اور دوسری محافل میں جانے کی ہوتی ہے-

اور تو اور اب یہ حال ہو گیا ہے کہ بڑے سے بڑا نعت خواں اور بڑے سے بڑا خطیب شروع میں پڑھنے کا خواہاں ہے-

ان کو ڈر  ہوتا ہے کہ ابھی سامعین کی جیبیں پر ہیں کہیں تاخیر ان کے لئے مادی نقصان کا باعث نہ بن جاۓ-

اور پھر یہ ھوتا ہے کہ اگر کسی بڑے نعت خواں نے یا بڑے خطیب نے یا کسی بڑے مہمان مقرر نے پہلے نعت پڑھ لی یا پہلے خطاب فرما دیا تو اس کے خطاب کے اختتام پر اگر وہ اسٹیج سے اٹھ کر چلا جاۓ تو آدھا مجمع بھی پنڈال سے غائب ھو جاتا ہے

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ موسیقی کو بھی زوال آتا گیا اور موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے شاعر اور گلو کار جو خاندانی اور پیدائشی گلوکار تھے موسیقی کے زوال کو دیکھتے ہوۓ اور نعتیہ محافل کی کثرت اور نعت گوئی کے عروج کو دیکھتے ہوۓ نعت گوئی میں قدم جمانے شروع کر دیئے

اور پھر نعت خوانوں کی فوج ظفر موج کو جنم دیا- اگر عقیدت ومحبت کے ساتھ ساتھ نیت صاف ہو تو یہ بہت اچھا اقدام تھا کہ برائی کو چھوڑ کر نیکی کی طرف راغب ہو گۓ-

لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان شاعروں اور گلو کاروں نے نعت لکھنے اور نعت پڑھنے کے نت نئے انداز اپنانا شروع کر دئیے جس سے جہاں نعت کا تقدس پامال ھوا وھاں نعت کا انکار کرنے والے اور بدعت کے فتوے لگانے والوں کو تنقید کا ایک سنہری موقع مل گیا-

اور پھر وہ لوگ نعت لکھنے والوں، نعت پڑھنے والوں نعت سننے والوں حتی کہ محافل نعت منعقد کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے -

ھوا یوں کہ وہ نعت خواں جو باقائدہ ریاض ' محنت اور بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کر کے نعت خواں بنے تھے ان کے مقابلہ میں وہ نوجوان طبقہ آگیا جنہوں نے اپنی آواز کا جادو جگانے کے لۓ اپنے ساتھ ایک ایسا گروپ تیار کر لیا جنہوں نے پہلے پہل تو دف بجا کر نعت میں ایک نئ ردھم پیدا کی اور پھر ان نعت خوانوں کی جسمانی حرکات ' چشم ابرو کے اشارے اور اصحاب سرمایہ کی مدح خوانی باقاعدہ طور پر نعت خوانی کا حصہ بن گۓ-

اور پھر اس دور میں خوشامد کسے پسند نہیں ہوتی-اہل دولت نے اپنے اپنے پسندیدہ نعت خوانوں کو نوازنا شروع کر دیا اور وہ لوگ جو محافل نعت میں کبھی جانا پسند نہیں کرتے تھے اور نعت سننا تو دور کی بات نعت کو نظم اور بدعت کے فتوے لگاتے تھے وہ بھی اس نئی موسیقی سے محظوظ ہونے لگے

اور پھر وہ لوگ سر عام کہنے لگے کہ ہمیں موسیقی کا ایک نیا انداز مل گیا ہے- اور پھر کوئ اعتراض بھی نہیں کرے گا کہ یہ کیوں سن رہےہیں -

بلکہ اب تو یہ حالات ہو گۓ ہیں کہ وہی لوگ معززین بن کر اسٹیج کی زینت بننے لگے ہیں

مگر افسوس کا مقام ہے کہ نعت خوانوں نے امام نعت گویاں کے اس پیغام کو فراموش کر دیا ہے کہ:-

"کروں مدح اہلِ دُوَل رضؔا پڑے اِس بَلا میں میری بَلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہٴِ ناں نہیں"
🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔