حدیثِ مُدَلَّسْ اور صحیح بخاری ۔ ضعف یا اسباب ضعف اتنی ہنگامہ خیز شے نہیں جو بسبب جہالت بنادیا گیا ہے
مُدَلَّسْ حدیث کو روایت کرنے والا مُدَلَّسْ کہلاتا ہے، وہ احباب جو ہر بات پر صحیح بخاری سے حوالہ طلب کرتے ہیں اور اس کے سوا کسی کو نہیں مانتے ان کے لئے عرض کرتا چلوں کہ صحیح بخاری کے 80 راوی ایسے ہیں جو محدثین کے معروف معیار کے مطابق مُدَلِّسِيْن ہیں یعنی جن کے اندر سقط خفی ہے۔ مراد یہ کہ کوئی ایسا انقطاع ہے کہ جس کو آسانی کے ساتھ کوئی عام آدمی پڑھ کر جائزہ نہیں لے سکتا۔ ایک ماہر اور متخصص فی الفن کو ہی پتہ چل سکتا ہے کہ انقطاع کی نوعیت کیا ہے؟۔۔۔ کیا روایت کرنے والا اس کا شاگرد تھا یا نہیں۔۔۔ لقاء و سماع کا ثبوت ہے یا نہیں؟۔۔۔ تدلیس کا لفظ اندھیرے سے ہے۔ مراد آسانی سے انقطاع معلوم نہیں ہوتا۔ اس طرح صحیح مسلم کے رواۃ میں بھی مُدَلِّسِيْن ہیں مگر اس کے باوجود صحیح بخاری و صحیح مسلم کی وہ تمام احادیث جو مُدَلِّسِیْن رواۃ سے روایت ہیں، احادیث صحیح کہلاتی ہیں۔۔۔۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ راوی معتبر، ثقہ احفظ اور صاحب اتقان ہیں۔ نیز امام بخاری کا ان پر اعتماد ہے اور ہمارا امام بخاری پر اعتماد ہے۔ مُدَلِّسِيْن کے درجات مقرر کئے گئے ہیں کہ کس کس درجہ کے لوگ مُدَلِّسِیْن ہیں۔ بخاری شریف میں 39 مُدَلِّسِیْن مرتبہ اولیٰ و ثانیہ کے ہیں۔۔۔ 29 مُدَلِّسِيْن مرتبہ ثالثہ اور رابعہ کے ہیں اور بخاری شریف کی ان کل احادیث کی تعداد جن میں رواۃ مُدَلِّسِيْن ہیں 6272 ہے۔ گویا ساری بخاری شریف میں تدلیس آجاتی ہے یعنی یہ احادیث ایسے رواۃ سے روایت ہیں جن کے ہاں کسی نہ کسی طرف سے تدلیس ہے۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ تدلیس ایک ضعف اور کمزوری ہے مگر امام بخاری اس کو خاطر میں نہیں لائے، چونکہ امام بخاری کی تحقیق میں وہ سارے معتبر و معتمد ہیں اور تابعین و تبع تابعین ہیں اس تدلیس کے ضعف کے باوجود وہ تمام احادیث صحاح ہیں۔ سمجھانا مقصود یہ تھا کہ ضعیف ہونے کا کہیں ایک سبب یا ضعیف پڑھ لیا کہ ’’یہ راوی مُدَلَّسْ ہے اور روایت مُدَلَّسْ ہے لہذا حدیث ضعیف ہے ہم نہیں مانتے‘‘ یہ اتنی جاہلانہ، ظالمانہ اور فتنہ پرور بات ہے کہ پورے دین کی بنیاد کو ہلادینے کے مترادف ہے۔ اس طرح تو صحیح بخاری و مسلم شریف بھی نہیں بچ پاتی اور یہ صرف صحیح بخاری و مسلم کی بات نہیں بلکہ مُدَلِّسِيْن وہ جلیل القدر تابعین و تبع تابعین ہیں کہ اگر آپ ان کے نام سنیں تو دنگ رہ جائیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پس ضعف یا اسباب ضعف اتنی ہنگامہ خیز شے نہیں جو بسبب جہالت بنادیا گیا ہے۔ ان چیزوں کے ازالے ہوتے ہیں، ان کے توابع و شواہد لائے گئے ہیں، اگر ایک سند میں تدلیس تھی تو دوسری اسانید جو توابع و شواہد کے طور پر آئی اس میں تدلیس نہ تھی جس کی وجہ سے اسے قبول کرلیا اور وہ صحیح ہوگئی۔ لہذا کسی ایک روایت کے حکم کے اوپر فیصلہ نہیں کرتے۔ ممکن ہے دوسری سند سے اس کا حکم کچھ اور ہو۔
ضعیف کی بقیہ 10 اقسام کا تعلق صرف حدیث کے راویوں کی ذات سے متعلق ہیں۔ ضعیف ہونے کے پانچ اسباب کا تعلق راویوں کی عدالت سے ہے اور پانچ اسباب کا تعلق راویوں کے ضبط سے ہے۔
ضعیف کی پہلی پانچ اقسام کا تعلق سند کے ساتھ ہے۔
دوسری پانچ اقسام کا تعلق راویوں کی عدالت میں کسی کمی کے ساتھ ہے۔
تیسری پانچ اقسام کا تعلق راویوں کے ضبط کے ساتھ ہے۔
ان دس اقسام میں راویوں کی عدالت اور ضبط کے متعلق جو چیزیں ہیں ان میں سے 8 یہ ہیں :
1۔راوی فحش غلطی کرنے والا ہو
2۔ زیادہ غفلت کا مرتکب ہو
3۔ فسق ہو 4۔ وہم ہو
5۔ ثقات کی مخالفت ہو 6۔ حافظہ میں کمزوری ہو
7۔ جہالت ہو (مراد راوی کا حال معلوم نہ ہو)
8۔ اہل بدعت میں سے ہو۔
بدعتی سے روایت کی قبولیت اور اسکی شرائط
راوی کا بدعتی ہونا بھی اسبابِ ضعیف میں سے ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری کا مذہب بھی یہ ہے کہ اگر کوئی اہل بدعت میں سے بھی راوی ہو تو اس کی روایت کو بھی قبول کرتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ اہل بدعت کا قائد، امام، مبلغ نہ ہو، فتنہ پرور نہ ہو۔ صرف اس راوی کا رجحان اس عقیدے کی طرف ہو۔ دوسری شرط یہ کہ اس کے اندر صداقت انتہا درجے کی ہو، عقیدہ دوسرا ہونے کے باوجود وہ جھوٹ کو کفر سمجھتا ہو جیسے بعض خارجی کفر سمجھتے تھے۔ اگر یہ دو شرطیں پائی جائیں تو ایسے راوی سے جس کے عقیدے کا تعلق مرجئہ، شیعہ اور خوارج سے ہے ان سے بھی روایت کی جاسکتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام بخاری و امام مسلم نے بھی ایسے راوی سے روایات لیں۔ امام بخاری اور امام مسلم کے بعض راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں شیعہ بھی ہیں۔ امام بخاری کے دادا شیوخ اور اپنے شیوخ کے اندر بھی ایسے موجود ہیں جن پر تشیع کا الزام لگا۔ بخاری کے شیوخ و رواۃ کے اندر بعض راویوں پر شیعہ، خارجی، مرجئہ ہونے کا الزام بھی ہے۔ صرف صحیح بخاری کا شور مچانے والے سمجھیں کہ جو شور وہ دوسرے کا عقیدہ رد کرنے کے لئے مچا رہے ہیں خدانخواستہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری احادیث کا نظام تو رد نہیں کر رہے۔ سوچیں! اس جہالت سے توبہ کر لیں، اگر بخاری و مسلم پر اعتماد اٹھ جائے، اور صحاح ستہ پر اعتماد اٹھ جائے تو باقی کیا بچتا ہے؟
امام دار قطنی نے امام بخاری کے 80 سے زائد راویوں پر ان کے مسلک کی بنیاد پر تنقید کی۔ صدیوں بعد امام ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری کا دفاع کرتے ہوئے ان اعتراضات کا رد کیا۔ چنانچہ فتح الباری کے مقدمہ ’’ہدیۃ الساری‘‘ میں امام ابن حجر عسقلانی نے 150 سے زائد صفحات پر امام دار قطنی کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے امام بخاری کا دفاع کیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اصول حدیث کی تمام کتب میں یہ درج ہے کہ اگر ائمہ نے شیعہ، رافضی، مرجئہ یا خوارج میں سے کسی راوی کی روایت کو لیا ہے تو دو شرائط کی وجہ سے لیا ہے کہ وہ راوی عدول تھے، خواہ کچھ بھی ہوجائے وہ جھوٹ نہ بولتے تھے، دوسرے عقیدے کے آدمی کا رجحان عقیدے میں غلط تو ہو سکتا ہے مگر اپنے عمل میں متقی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ ائمہ نے ان راویوں سے روایت لیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ اپنے عقیدے کی تائید میں وضع کرنے والا نہیں ہے۔ جھوٹ نہیں بول سکتا۔۔۔ یا ائمہ نے اِن راویوں سے وہ احادیث لی ہیں جن کا تعلق ان راویوں کے عقیدے کے ساتھ نہ تھا۔ چونکہ اس راوی کو ان احادیث میں غلط بیانی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ احادیث اس کے عقیدے کے نہ موافقت میں ہیں اور نہ مخالفت میں۔ پس اگر اہل بدعت سے تعلق رکھنے والا کوئی راوی صادق بھی ہو اور عادل بھی اور روایت کردہ احادیث اس کے عقیدے کے متعلق بھی نہ ہو اور نہ روایت کرنے والا اہل بدعت کے اماموں یا قائدین میں سے ہو تو امام بخاری و امام مسلم جیسے ائمہ نے ان راویوں سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔