Pages

Wednesday, 5 April 2017

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا سایہ نہیں ظل اور فئی کی تحقیق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا سایہ نہیں ظل اور فئی کی تحقیق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ .
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
(المائده، 5 : 15)

يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا آرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِيْراً وَّ دَاعِيًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِيْراً.

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔(الاحزاب، 33 : 46)

ان دو آیتوں میں اللہ تعاليٰ نے واضح طور پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور اور چمکا دینے والا آفتاب قرار دیا ہے۔

نور و ظلمت : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور و آفتا ب ہوئے۔ روشن کرنے والے ہوئے تو لا محالہ ظلمت و اندھیرے کا آپ سے تعلق نہ رہا کہ وہ روشنی کی ضد ہے۔ فرمان باری تعاليٰ ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ ۔ ترجمہ : سب تعریفیں اللہ تعاليٰ کے لئے جس نے

السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ. ثُمَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ.

ترجمہ : آسمان اور زمین پیدا فرمائے اور اندھیرے اور نور پیدا فرمائے۔ پھر کافر لوگ (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔(الانعام، 6 : 1)

کیا نور و ظلمت برابر ہیں ؟

قُلْ هَلْ يَسْتَوِيْ الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِيْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ.

ترجمہ : تم فرماؤ! کیا اندھا اور انکھیارا برابر ہیں؟ یا کیا برابر ہیں اندھیریاں اور نور۔
(الرعد،13 : 16)

اللہ کا حکم، انبیاء کا منصب : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰيٰتِنَا آنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

ترجمہ : اور بے شک ہم نے موسيٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لا۔(ابراهیم، 14 : 15)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

الٰر. کِتَابٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ.

ترجمہ : یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائو۔ ان کے رب کے حکم سے۔(ابراهيم، 14 : 1)

اللہ کا کام اور شیطان کا کام : اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا! يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا اُوْلِيٰئُهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَلِدُوْنَ.

ترجمہ : اللہ والی ہے مسلمانوں کا، انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرة، 2 : 57)

هُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِه اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

ترجمہ : وہی ہے کہ اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے۔(الحديد، 57 : 9)

ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ نور و ظلمت آپس میں متضاد ہیں۔ جہاں ایک ہو دوسرا نہیں ہوسکتا۔ نہ دونوں جمع ہوں، نہ اٹھ سکیں۔ اللہ پاک رسول پاک قرآن ایمان اسلام نور ہیں اندھیرے نہیں۔ نیکی نور ہے اندھیرا نہیں۔ اللہ تعاليٰ اپنے مسلمان بندوں کے لئے نور پسند فرماتا ہے۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ شیطان کے دوست کافر اور کافروں کا دوست شیطان شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے کھینچ کھینچ کر اندھیروں میں جھونکتا ہے۔ ان کا فکر و عقیدہ اندھیرا۔ان کا عمل و کردار اندھیرا۔ جبکہ مسلمان کا عقیدہ بھی نور اس کا عمل بھی نور۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سِرَاج مُنِيْر، روشن آفتاب ہیں۔ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں ہوسکتا۔

حدیث پاک کی روشنی میں : حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔انی عندالله مکتوب خاتم النبيين وان ادم لمنجدل فی طينته وساخبرکم باول امری، دعوة ابراهيم وبشارة عيسٰی ورؤيا امی التی رأت حين وضعتنی وقد خرج لها نور اضاء لها منه قصور الشام.

ترجمہ : میں اللہ کے ہاں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے بن رہا تھا۔ اب میں تم کو اپنی پہلی بات بتائوں گا۔ کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسی علیہ السلام کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کا وہ منظر ہوں جو میری پیدائش کے وقت انہوں نے دیکھا۔ کہ ان کے جسم اقدس سے عظیم نور نکلا جس سے شام کے محلات ان پر روشن ہوگئے۔(مشکوة ص 513)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا۔ وجهه مثل السيف. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ روشن تلوار کی طرح چمکتا تھا؟ انہوں نے کہا لا نہیں۔ بل کان مثل الشمس والقمر بلکہ سورج اور چاند کی طرح۔ مسلم

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔ لم ارقبله ولا بعده مثله صلی الله عليه وسلم

میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔

ترمذی شریف میں آیا ہے کہ محمد عمار بن یاسر کے بیٹے ابو عبیدہ کہتے ہیں میں نے ربیع بنت معاذ بن عفراء سے عرض کی صفی لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کریں۔بولیں، بیٹا! اگر تم سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ۔

رَاَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً. دیکھتے کہ سورج طلوع ہورہا ہے۔ دارمی۔

جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دیکھتا اور چاند کو بھی۔ آپ کے جسم اقدس پر سرخ رنگ کا حلہ تھا،

فاذا هو احسن عندی من القمر.

تو آپ میری نظر میں چاند سے زیادہ حسین تھے۔ ترمذی، دارمی

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

مارأيت شيئا احسن من رسول الله صلی الله عليه وسلم.

میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھی۔

کأنّ الشمس تجری فی وجهه.

گویا سورج آپ کے چہرہ اقدس میں پیر رہا ہے۔ ترمذی

ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کرتے۔

کالنور يخرج من بين ثناياه.

گویا سامنے کے دو دانتوں سے نور نکل رہا ہے۔ دارمی

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ اقدس یوں چمک اٹھتا جیسے قطعۃ قمر چاند کا ٹکڑا۔ متفق علیہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا مانگتے۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِيْ قَلْبِيْ نُوْرًا وَّ فِيْ بَصْرِيْ نُوْراً وَّفِی سَمِعْی نُوْراً وَّعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْراً وَّعَنْ يَسَارِيْ نُوْراً فَوْقِيْ نُوْراً وَّ تَحْتِيْ نُوْراً وَّاَمَا مِيْ نُوْراً

اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما۔ اور میری آنکھ (نظر) میں نور پیدا فرما۔ میرے کان (شنوائی) میںنور پیدا فرما۔میرے دائیں نور۔ اور میرے بائیں نور، میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور 10 میرے لئے نور وَّخَلْفِيْ نُوْراً وَّاجْعَلْ لِيْ نُوْراً. ۔۔۔۔۔۔عصبی، لحمی۔ دمی، شعری، بشری کردے۔۔۔ دوسری روایت میں ہے میرا پٹھہ، گوشت، خون، میرے بال، میرا چمڑا۔

(صحيح بخاری ص 935 ج 2 طبع کراچی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعاء مقبول بارگاہ ہے۔ لازم ہے کہ یہ دعائے نور بھی مقبول ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں نور ثابت ہوگئے تو اس دعاء کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی دعاء اس لئے ہوتی ہے کہ جو بندے کے پاس نہیں وہ مل جائے اور کبھی اس لئے کہ جو ہے اس میں برکت ہو۔ اضافہ ہو۔ دوام ہو۔ ہم فاتحہ میں ہمیشہ ہدایت کی اور سیدھی راہ چلنے کی دعاء مانگتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ مانگتے تھے اور ہر مسلمان ہمیشہ یہ دعاء مانگ رہا ہے اور مانگتا رہے گا۔

اس کا یہی مفہوم ہے۔

تو ہے سایہ نور کاہر عضو ٹکڑا نور
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے، نہ سایہ نور کا

اہل لعنت : النور ههنا هو سيدنا محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم ای جاء کم نبی وکتاب.

اس جگہ نور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یعنی تمھارے پاس نبی تشریف لائے اور کتاب آئی۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

لسان العرب لابن منظور افريقی ص 322 ج 14 طبع بيروت

ابن الاثیر نے کہا نور وہ ہے جس کی روشنی سے اندھا دیکھنے لگتا ہے اور گمراہ راہ پر آجاتا ہے۔

الظاهر فی نفسه المظهر لغيره.

جو خود ظاہر اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ایضاً

فی صفته صلی الله عليه وسلم انور المتجرد.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم پاک خالص نور تھا۔

النهاية لابن الاثير الخدری ص 125 ج 5 طبع ايران

امام قاضی ایاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

انه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولا قمر لانه کان نورا. وان الذباب کان لا يقع علی جسده ولا ثيابه.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھوپ یا چاندنی میں سایہ نہیں تھا، کیونکہ آپ نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اقدس اور کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھی۔

الشفاء بتعريف حقوق المصطفی ص 243 ج 1 طبع مصر

ان النبی صلی الله عليه وسلم کان اذا مثی لم يکن له ظل.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا۔

مفردات راغب ص 315 طبع کراچی
ظل اور فئی

ظلالهم اشخاصهم.

ان کے ظلال یعنی ذاتیں۔

ابن عباس کی حدیث میں ہے ’’کافر غیراللہ کے آگے سجدہ کرتا ہے اور اس کا ظل یعنی جسم جس کا ظل ہے، اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے‘‘۔ ظل الشئی۔ کنہ کسی چیز کا حفاظتی پردہ۔ ظل کل شئی شخصہ۔ ہر چیز کا ظل، اس کی ذات۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

لسان العرب لابن منظور ص 261 ج 8 طبع بيروت.النهاية لابن الاثير ص 161 ج 3 طبع ايران

تیرے اور سورج کے درمیان جب کوئی شے حائل ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا سایہ ظل اور فئی ہے۔ سورج ڈھلتے وقت تک ظل اور س کے بعد فئی کہلاتا ہے۔

نهاية ص 159 ج 3

کبھی ظل بول کر عزت، طاقت اور خوشحالی مراد ہوتی ہے۔ اظلنی فلان۔ حرسنی۔ فلاں نے میری حفاظت کی۔

مفردات ص 314.

ذات کو ظل کہا جاتا ہے جیسے شاعر کہتا ہے۔

لما نزلنا رفعنا ظل اخبية

جب ہم اترے تو خیموں کو نصب کیا۔ یہاں ظل سے مراد خیمے ہیں۔ کہ انہی کو نصب کیا جاتا ہے نہ کہ سائے کو۔

مفردات راغب ص 315 طبع کراچی

الظل من کل شئی شخصه.

ہر چیز کا ظل اس کی ذات۔

تاج العروس سيد مرتضيٰ الزبيدی. ص 426 ج 7 طبع بيروت

جسم کثیف پر جب روشنی پڑتی ہے تو اس کا جسم کا سایہ پیدا ہوتا ہے جو دیوار، درخت یا زمین وغیرہ پر نظر آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم میں نور اور سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) فرمایا گیا ہے لہذا آپ کی نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسم اقدس کا سایہ نہ تھا۔ علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر عالم نے آپ کی نورانیت کا انکار نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ نور کا انکار کرنے سے اس کی ضد کا اثبات لازم آئے گا۔ اور نور کی ضد ظلمت و اندھیرا ہے۔ کس مسلمان کی ہمت ہے کہ اپنے نبی کی نورانیت کا انکار کرکے اس کی ضد یعنی آپ کو اندھیرا و ظلمت و تاریکی کا نام دے؟ یاد رہے کہ نور کے مقابلہ میں بشر نہیں، اندھیرا ہے۔ نورو بشر میں کوئی تضاد نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں۔ بشر بھی۔ ہاں نور و ظلمت میں تضاد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر گز ہر گز ظلمت و اندھیرا نہیں مانتے۔ نور مانتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن وحدیث و عربی لغت کے حوالوں سے یہ حقیقت ہم واضح کرچکے ہیں۔ یونہی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر مانتے ہیں۔ جو بشریت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں۔ کہ قرآن و حدیث و حقائق کا منکر ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سایہ کی روایات اور ان کی حقیقت ومفہوم

سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا فرماتی ہیں کہ دوران سفر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فالتو اونٹ تھا۔ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، صفیہ کا اونٹ بیمار ہوگیا ہے اگر تم اسے اپنا اونٹ دے دو تو بہتر ہو، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بولیں، میں اس یہودیہ کو دوں؟ اس پر رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ذولحجہ اور محرم دو مہینے، یا تین مہینے صفر بھی چھوڑے رکھا۔ ان کے پاس تشریف نہ لاتے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، یہاں تک میں آپ سے مایوس ہوگئی۔ (نہ جانے ملیں نہ ملیں) اور میں نے اپنی چارپائی بستر اٹھالیا۔

فبينما انا يوما بنصف النهار اذا انا بظل رسول الله صلی الله عليه وسلم مقبل.

اسی اثناء میں ایک دن دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو سامنے سے آتے دیکھا۔(مسند احمد ص 132 ج 6 طبع بيروت)

جن حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت سے کد ہے اور بہر صورت آپ کی ذات ستودہ صفات کے لئے تاریک سایہ ثابت کرنے کے درپے ہیں پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے اپنا مدعا ثابت کردیا۔ حدیث پیش کردی۔ حالانکہ ظل کا مطلب ہم نے لغت عرب کی معتبر و مستند کتب سے باحوالہ نقل کردیا ہے کہ جس طرح اس کا مطلب تاریک سایہ ہے اسی طرح ذات بھی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن و حدیث میں نور فرمایا گیا تو آپ کا تاریک سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نور کی تو نورانی شعاعیں ہوتی ہیں۔ کرنیں ہوتی ہیں۔اس حدیث پاک میں بھی ظل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اللہ کا ظل : ہم نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا، کہ ظل کا مطلب جیسے مادی کثیف چیزوں کا تاریک سایہ ہے اسی طرح اس کا مفہوم ذات اور شخص ہے۔ لہذا دلائل شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر ہی اس کا مفہوم متعین کیا جائے گا مگر بعض کم عقل و بدفہم لوگ اسی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ ظل کا مطلب تاریک و کثیف سایہ ہے جیسے ہمارا، تمہارا اور ہر مادی چیز کا۔ وہ اس حدیث پاک پر بار بار غور کریں شاید اللہ پاک شفاء دیدے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا۔ میری عزت و جلال کی بنا پر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟۔

اَلْيَوْمَ اُظِلُّهُمْ فِيْ ظِلِّيْ يَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّيْ.

آج میں ان کو اپنے سایہ میں، زیر سایہ رکھوں گا۔ جس دن میرے سائے کے بغیر کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مشکوة ص 425 بحواله مسلم)

ظل کا لفظ دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تاریک کثیف سایہ ثابت کرنے والے ایمان و عقل کو سامنے رکھ کر بتائیں اللہ کا سایہ اسی طرح ثابت کرو گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثابت کرتے ہو؟(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اس تمام تحقیق و گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کے مطابق نور بھی ہیں۔ بشر بھی، نورانیت کی وجہ سے آپ کا تاریک سایہ نہیں تھا۔ آیت و روایت میں جہاں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ظل کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاریک سایہ نہیں بلکہ آپ کی ذات اور شخصیت مراد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق سلف و خلف، تمام علماء، محدثین، مفسرین، اہل سیر متفق ہیں۔ مثلاً چند اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ۔

(حکيم ترمذی عن ذکوان. نور دراالاصول فی معرفة الرسول) (امام عبدالباقی زرقانی. زرقانی شرح مواهب اللدنيه ص 220 ج 4 طبع مصر) (امام راغب اصفهانی. مفردات ص 317 طبع مصر) (امام قاضی عياض. کتاب الشفاء 3.242 ص ج 1 طبع مصر. ) (شهاب الدين خفاجی. نسيم الرياض ص 391 ج 3 مصری) (سيرة حليه ص 422 ج 3 طبع مصر) (تفسيه مدارک ص 102 ج 2 طبع مصر) (تفسير عزيزی. شاه عبدالعزيز. دهلوی30 ص 219) (شيخ عبدالحق محدث دهلوی. مدارج النبوت ص 161 ج 2) (امام ابن حجر مکی. افضل القريٰ) (مجدد الف ثانی. مکتوبات شريف ص 187 . 337 ج 3 طبع نور کشور لکهنو) (مولوی رشيد احمد گنگوهی ديوبندی) (خصائص کبريٰ. سيوطی) (عزيز الفتاويٰ، مفتی عزيز الرحمن ديو بندی وغيره وغيره.)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔