Pages

Sunday 23 May 2021

انہدام جنت البقیع پرایک مفصل تحقیق: ”آلِ سعود نسلِ یہود“ پیش کردہ ازمحمد عثمان صدیقی (بشکریہ محققِ عرب محمدساخراورنیوز ایجنسی TNA)

انہدام جنت البقیع پرایک مفصل تحقیق:
”آلِ سعود نسلِ یہود“
پیش کردہ ازمحمد عثمان صدیقی
(بشکریہ محققِ عرب محمدساخراورنیوز ایجنسی TNA)
احباب سعودی عرب دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جس کا نام کسی خاندان کے نام پر ہے، سعودی عرب پر فرمانروا خاندان آل سعود کا پس منظر کیا ہے؟
 اس خاندان کے آباء و اجداد کون ہیں؟
اس خاندان کا تعلق کیا واقعی عرب کے مشہور خاندان عنزہ سے ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے؟
کیا آل سعود حقیقت میں عربی النسل ہیں؟ یا یہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے یا ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے تھا؟
یہ وہ تمام سوالات تھے جو تحقیق طلب تھے، چنانچہ اس تحقیق کا بیڑاایک محقق محمد ساخر نے اٹھایا،(محمد ساخر کی یہ ریسرچ اس کے لیے موت کا پروانہ لے کر آئی اور سعودی حکام نے اپنی اصل حقیقت سامنے آنے پر اس شخص کو سزائے موت دے دی)۔
اب مفصل انداز میں ہم آپ کو کوبتاتے ہیں کہ عرب شریف پر قابض ہزاروں بے بےگناہ مسلمانوں کو شہید کرنے والا قاتل جنت البقیع کو منہدم کرنے والا درندہ ڈاکو لٹیرا  بدبخت سعود اصل میں ایک منافق یہودی ”مردخائی“ کا پوتاتھا۔
851 ہجری میں قبیلہ عنزہ کی ایک شاخ آل مسالیخ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے ایک تجارتی کارواں تشکیل دیا جس کا مقصد عراق سے غذائی اجناس خرید کر انہیں نجد لانا تھا، اس قافلے کا سالار سامی بن مثلول تھا، اس قافلے کا گزر جب بصرہ کے بازار سے ہوا تو قافلے کے کچھ لوگوں نے اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے بصرہ کے بازار کا رخ کیا، وہاں وہ ایک تاجر کے پاس پہنچے، یہ تاجر یہودی تھا، اس کا نام مردخائی بن ابراہیم بن موسیٰ تھا،خرید و فروخت کے دوران اس تاجر نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا تعلق عنزہ قبیلے کی ایک شاخ المسالیخ سے ہے، یہ نام سننا تھا کہ یہودی کھڑا ہوا اور وہ ان میں سے ہر فرد سے بڑے تپاک کے ساتھ گلے ملا، اس نے بتایا کہ وہ خود اس قبیلے کی شاخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنے والد کے عنزہ قبیلے کے بعض افراد سے ایک خاندانی جھگڑے کی وجہ سے اس نے بصرہ میں آکر رہائش اختیار کر لی، اس نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ قافلے والوں کے تمام اونٹوں پر گندم، کھجور اور چاول کی بوریاں لاد دی جائیں، یہودی تاجر کے اس رویے نے قافلے والوں کو حیران کر دیا، وہ انتہائی خوش ہوئے کہ عراق میں ان کے ایک خاندان کا فرد مل گیا ہے، جو ان کے رزق کا وسیلہ ہے، انہوں نے اس کی ہر بات پر من و عن یقین کر لیا، اگرچہ وہ تاجر یہودی تھا لیکن چونکہ المسالیخ قبیلے کے لوگوں کو اناج کی شدید ضرورت تھی لہٰذا انہوں نے اس کی مہمان نوازی کو اپنے لیے غنیمت جانا، جب قافلہ اپنا واپسی کا رخت سفر باندھ رہا تھا تو اس نے اہل قافلہ سے درخواست کی کہ وہ اگر اسے بھی اپنے ہمراہ لے چلیں تو یہ اس کے لیے بڑی خوش بختی ہوگی، کیونکہ اس کی عرصہ دراز سے خواہش ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے وطن کو دیکھے، نجد پہنچ کر اس نے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دی اور کئی افراد کو اپنی چرب زبانی کی بنا پر، اپنے حلقہ اثر میں لانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن غیر متوقع طور پر اسے وہاں القسیم سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما شیخ صالح السلمان عبد اللہ رحمہ اللہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان مذہبی عالم کی تبلیغ کا دائرہ نجد، یمن اور حجاز تک پھیلا ہوا تھا، یہودی کو اس شخص کی مخالفت کی وجہ سے مجبوراً یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور وہ القسیم سے الاحصاء آگیا، یہاں آکر اس نے اپنا نام تبدیل کر دیا اور مردخائی سے مرخان بن ابراہیم موسیٰ بن گیا، پھر وہ یہاں سے القطیف کے قریب ایک علاقہ دراعیہ میں قیام پذیر ہوگیا، یہاں اس نے مقامی باشندوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک من گھڑت کہانی کا سہارا لیا، کہانی یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں اور کفار کے مابین لڑی جانے والی جنگ احد میں ایک کافر کے ہاتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال لگ گئی، اس کافر نے یہ ڈھال بنو قنیقہ کے ہاتھ فروخت کر دی، بنو قنیقہ نے اسے ایک بیش بہا خزانہ سمجھتے ہوئے اپنے پاس محفوظ رکھا، یہودی تاجر نے اس علاقے کے بدؤوں کے درمیان اس طرح کی کہانیاں پھیلانا شروع کر دیں، ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ عربوں میں یہودی قبائل کا کتنا اثر ہے اور وہ کس قدر لائق احترام ہیں، اس نے اس طریقے سے عرب دیہاتیوں، خانہ بدوشوں، بدو قبائل اور سادہ لوح افراد میں اپنا ایک مقام و مرتبہ بنا لیا، آخر اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ مستقل طور پر القطیف کے قریب درعیہ قصبے میں قیام کرے گا اور اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے گا، اس کے خیال میں یہ علاقہ عرب میں بڑی یہودی سلطنت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرے گا، اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے عرب کے صحرائی بدؤوں سے روابط شروع کر دیے، اس نے اپنے آپ کو ان لوگوں کا ملک یعنی بادشاہ کہلوانا شروع کردیا، اس موقع پر دو قبائل قبیلہ عجمان اور قبیلہ بنو خالد اس یہودی کی اصلیت کو جان گئے اور فیصلہ کیا کہ اس فتنے کو یہیں ختم کر دیا جائے، دونوں قبائل نے باہم اس کے مرکز درعیہ پر حملہ کردیا اور اس قصبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جبکہ مردخائی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور العارض کے نزدیک المالی بید غثیبہ کے نام سے ایک فارم میں پناہ لی۔ یہی العارض آج ریاض کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سعودی عرب کا دارالخلافہ ہے، مرد خائی نے اس فارم کے مالک ۔۔ کہ جو بہت بڑا زمیندار تھا ۔۔ سے درخواست کی کہ وہ اسے پناہ دے، فارم کا مالک اتنا مہمان نواز تھا کہ اس نے مرد خائی کی درخواست قبول کرلی اور اسے اپنے یہاں پناہ دے دی لیکن مردخائی کو اپنے میزبان کے پاس ٹھہرے ہوئے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس نے اپنے محسن اور اس کے اہل خانہ کو قتل کردیا اور بہانہ یہ کیا کہ ان تمام کو چوروں کے ایک گروہ نے قتل کیا ہے، اس کے ساتھ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس افسوس ناک واقعہ سے قبل اس نے اس زمیندار سے اس کی تمام جائیداد خرید لی تھی، لہٰذا اب اس کا حق بنتا ہے کہ اب وہ یہاں ایک بڑے زمیندار کی حیثیت سے رہے، مرد خائی نے اس جگہ پر قبضہ جمالینے کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے کے نام پر آل درعیہ رکھا اور اس غصب شدہ زمین پر فوراً ہی ایک بڑا مہمان خانہ تعمیر کروایا جس کا نام اس نے مضافہ رکھا، یہاں رہتے ہوئے اس نے آہستہ آہستہ اپنے مریدین کا ایک حلقہ بنا لیا جنہوں نے لوگوں کے درمیان یہ غلط طور پر مشہور کرنا شروع کردیا کہ مرد خائی ایک مشہور عرب شیخ ہے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنے اصل دشمن شیخ صالح سلمان عبداللہ التمیمی کو ایک منصوبے کے تحت قصبہ آل زلافی کی مسجد میں قتل کروادیا، اس اقدام کے بعد وہ ہر طرف سے مطمئن ہوگیا اور درعیہ کو اپنا مستقل ٹھکانابنا لیا، درعیہ میں اس نے کئی شادیاں کیں، جن کے نتیجے میں وہ درجنوں بچوں کا باپ بنا، اس نے اپنے ان تمام بیٹے بیٹیوں کے نام خالص عرب ناموں پر رکھے، یہودی مرد خائی کی یہ اولاد ایک بڑے عرب خاندان کی شکل اختیار کر گئی، اس خاندان کے لوگوں نے مرد خائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیں اور ان کے فارموں پر قبضہ کرنا شروع کردیا، اب یہ اس قدر طاقتور ہوگئے کہ جو کوئی بھی ان کی شر انگیزیوں کے خلاف آواز اٹھاتا اسے قتل کروا دیتے، یہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے، اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے کے لئے انہوں نے رابعہ عنزہ اور المسالیخ جیسے مشہور عرب قبائل کو اپنی بیٹیاں دیں، مرد خائی کے لاتعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مردخائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی اس وقت کہ جب میں یہ تحقیق پیش کررہا ہوں آل سعود کی تعداد 200 شہزادوں اور 25000 نفوس تک پہنچ چکی ہے
انیسویں صدی عیسوی میں آل سعود کو کیسے انگریزوں نے استعمال کرکے سلطنت عثمانیہ ختم کروائی یہ ایک الگ موضوع ہے مگرفی الوقت انہدام جنت البقیع کے حوالے سے معروضات پرہی اکتفاکررہاہوں
تو احباب ”بقیع“ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چونکہ بقیع قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا، اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا، پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا، تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے،اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس(بقیع کی)جگہ تشریف لائے،تو ارشاد فرمایا: مجھے اس جگہ(یعنی بقیع) کا حکم(قبرستان کے لیے)دیا گیا ہے۔(مستدرک امام حاکم 11/193)اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی)جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہےجنت البقیع میں تقریباً دس ہزار صحابہ، کئی امہات المؤمنین، ہلبیت آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم،سینکڑوں اولیاء اللہ، صوفیا، علماء، محدثین اورسلطنت عثمانیہ کے خلفاو دیگر مدفون ہیں۔
دوررسالت میں سب سے پہلے انصار مدینہ میں اسعد بن زرارہ اور عثمان بن مظعون رضوان علیہ اجمعین اس قبرستان میں دفن کیے گئے،سلطنت عثمانیہ میں مؤرخین نے تحقیق کی روشنی میں کئی اہم شخصیات کی قبروں کی نشان دہی کی اور وقت گزرنے کے بعد جب زیادہ قبریں ہوتی گئیں تو بہت سے مزارات اور گنبد مخصوص شخصیات کی عزت وتوقیر کے طورتعمیر کیے گئے جو پچھلی صدی میں انہدام سے سےقبل باقی تھے۔ اور آل سعود نے یوم الہدم کے تاریخی سیاہ واقعے میں سب اجاڑ دیے۔
جنت البقیع میں مدفون دس ہزارسے زائد اللہ کی نیک ہستیوں میں اولادِ سیدی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
 حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمہ بنت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ام کلثوم بنت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت رقیہ بنت سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زینب بنت محمدصلی اللہ علیہ وسلم
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ بنت ابی بکررضی اللہ عنہا، حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی
حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ عنہ
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ
حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہ
حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہ
حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہ
حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ
صحابہ و دیگر شخصیات :
حضرت عثمان بن مظعون،رضی اللہ عنہ صحابی پہلے مدفون بقیع
حضرت اسعد بن زرارہ، صحابی رضی اللہ عنہ دوسرے مدفون بقیع
حضرت عثمان بن عفان، داماد رسول و تیسرے خلیفہ راشد
رضی اللہ عنہ حضرت اروی بنت کریزرضی اللہ عنہ خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان کی والدہ ہرضی اللہ عنہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف، صحابی رضی اللہ عنہ  عشرہ مبشرہ میں سے ایک۔
حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ، صحابی عشرہ مبشرہ میں سے ایک۔
حضرت سعد بن معاذ، صحابی رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو سفیان بن حرب صحابی رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ، تابعی
حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودرضی اللہ عنہ، تابعی
حضرت عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ تابعی
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکررضی اللہ عنہ تابعی
ابوبکر بن عبدالرحمان رضی اللہ عنہ، تابعی مذکورہ پانچ فقہا سات معروف فقہائے مدینہ میں سے ہیں
حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ، تابعی فقیہ مدینہ منورہ۔
حضرت سالم بن عبد اللہ، رضی اللہ عنہ تابعی
حضرت خارجہ بن زید بن ثابت، تابعی رضی اللہ عنہ 
حضرت سلیمان بن یسار، رضی اللہ عنہ تابعی
حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، تابعی فقیہ مدینہ منورہ۔رضی اللہ عنہ
حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ، آپ فقہ مالکی کے بانی و فقيہ مسلم۔
حضرت شمس الدین سخاوی، محدث ومؤرخ مؤرخ مصري۔
امام شامل، قفقاز۔رحمتہ اللہ علیہ
شیخ محمد غزالی سقا عالم ومفكر اسلام رحمتہ اللہ علیہ
حضرت محمد سید طنطاوی ، شيخ الأزهر۔رحمتہ اللہ علیہ
جناب محمد ادریس سنوسی، ملك لیبیا رحمتہ اللہ علیہ۔
حضرت سلطان عبد المجید ثانی، خلیفہ سلطنت عثمانیہ۔رحمتہ اللہ علیہ یہ نام تو کچھ ہی ہیں مگر ہزاروں کی تعداد میں جید ہستیاں اس سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مختص کردہ قبرستان میں پردہ فرماہیں
8 شوال 1344 ہجری بمطابق 21 اپریل 1926ء بدبخت سعودی دہشت گردوں نے ہلہ بول دیا اورمکمل طور پرصحابہ و اہلبیت آئمہ اربعہ تابعین تبع تابعین آئمہ مجتہدین کے مزارات بلڈوزروں سے منہدم کرکے تمام قیمتی سامان غارت کرکے چوری کرلیا۔ ان جنگجودہشت گردوں کا اگلا ٹارگٹ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک کامعاذاللہ انہدام تھا جو دنیا بھرسے مسلمانان عالم کے غصے کی وجہ سےیہ نہ کرسکےمگر آل سعودعبدالوہاب نجدی کی فکرکوبدمعاشی کےزور پرحرمین شریفین پر مسلط کردیا گیا 1932 سے جدید انداز میں ملک سعودی عرب کی بنیاد پڑی تب سے سرکاری سرپرستی میں جنت البقیع کو چٹیل میدان کی صورت ہی رکھاہواہےوہاں دوران عمرہ وحج دنیابھرسےآئے سادہ لوح مسلمانان عالم کوجنت البقیع شریف کابلڈوزکیاگیا چٹیل میدان دکھاکرکہا جاتاہے یہ دیکھویہاں تو کوئی مزار نہیں تم لوگ ہی اللہ کے ولیوں کے بڑے بڑے مزارات بناتے ہو۔اس بلڈوزر سے پھیری گئی سیاہی سے پٌر تاریخ کو نہ جاننے والا یہ سادہ لوح حاجی ان مکاروہابیوں کی باتوں میں آکرگمراہ ہوجاتاہے۔اس مفصل تحریر میں آپ کو بتایاگیاکہ آل سعود مردخائی نامی منافق یہودی کی نسل سے ہیں اور اب ان کی شرانگیزیوں فتنہ گری اور یہود وہنودسے میل ملاپ صلیبیوں کے مفادات کا تحفظ بھی یہی ثابت کرتاہے کہ انکی اصل یہود ہی ہے۔
استاد قمرجلالوی کیا خوب فرماگئے
پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
بے مثل یہودی بھی سعودی ہے عذاب
اس قوم کےبارے میں قمر کوئی کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔