Pages

Saturday 22 May 2021

نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کا روضہ اقدس سارے جہان سے افضل ہے*

*نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کا روضہ اقدس سارے جہان سے افضل ہے*

نبی اکرم، نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ و سلم افضل الخلق ہیں، کوئی مخلوق بھی آپ سے افضل نہیں. ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے، اسی میں دفن کیا جاتا ہے، لہذا جس پاک مٹی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے جسد اطہر کی تدفین ہوئی اسی سے آپ کی تخلیق ہوئی، اور جب آپ افضل الخلق ہوئے،، تو وہ پاک مٹی بھی تمام مخلوق سے افضل ہوئی
علاوہ ازیں زمین کے جن اجزاء کو افضل الرسل، افضل البشر، افضل الخلق صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے جسد اطہر سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ باقی تمام مخلوقات سے اس لیے بھی افضل ہیں کہ یہ شرف عظیم ان کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں. 
زیر بحث مسئلے میں خدانخواستہ اللہ تعالی کے درمیان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے درمیان تقابل نہیں کیا جا رہا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے درمیان اور دوسری مخلوقات کے درمیان تقابل ہے، کعبہ ہو، عرش ہو، کرسی ہو، یہ سب مخلوق ہے، اور آنحضرت تمام مخلوق سے افضل ہیں، اور قبر مبارک کی جسد اطہر سے لگی ہوئی مٹی اس اعتبار سے اشرف و افضل ہے کہ جس اطہر سے ہم آغوش ہونے کی جو سعادت اسے حاصل ہے، وہ نہ کعبہ کو حاصل ہے، نہ عرش و کرسی کو۔ آئیے اس مسئلہ کو احادیث اور اکابرین امت کی آراء کی روشنی میں دیکھتے ہیں 

*عظمت مدینہ بذریعہ عظمت نبوی*

عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرني عمر بن عطاء بن وراز عن عكرمة مولى بن عباس أنه قال يدفن كل إنسان في . التربة التي خلق منها. [مصنف عبد الرزاق : باب يدفن في التربة التي منها خلق ، 6531 ، 3/515]؛
ترجمہ : عبدالرزاق ابن جریج سے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی عمر بن عطاء بن وراز نے، ان سے عکرمہ ابن عباس کے غلام نے کہ انہوں (حضرت ابن عباس) نے فرمایا:  دفن کیا جاتا ہے ہر انسان اسی مٹی میں جس سے وہ پیدا کیا گیا؛

یہ بات (مضمون و معنی) حدیث رسول سے بھی ظاہر ہے؛

أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالا : ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ : " قَبْرُ مَنْ هَذَا ؟ " , فَقَالُوا : فُلانٌ الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ. [المستدرك على الصحيحين، للحاکم :رقم الحديث: 1289 - 1/521 ، رقم 1356،.شعب الایمان بیہقی ؒ ،طبع مکتبہ رشد الریاض (جلد 12 ص297 ،رقم 9425)]؛
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں ایک جنازے پر ایک قبر کے پاس سے گزرے ، آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فلاں حبشی کی ہے (جو ہمارے شہر مدینہ میں فوت ہوگیا ہے ) آپ نے " لا إله إلا الله " پڑھا اور فرمایا : یہ آدمی اپنی زمین و آسمان یعنی اپنے علاقے سے(اللہ کے حکم سے ) یہاں اس مٹی میں لایا گیا جس مٹی سے اسے پیدا کیا گیا تھا ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي " . رواه البخاري

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے

’’حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِي ضَمْرَةَ، نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ النَّصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ "‏مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: " (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے"‘‘۔ (سنن ابن ماجه: کتاب الفتن، باب حُرْمَةِ دَمِ الْمُؤْمِنِ وَمَالِهِ، ج5، رقم الحدیث 3931)

امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ " مجاورت " کیوجہ سے افضل ہے اسی وجہ سے محدث کا قرآن پاک کی جلد کو چھونا جائز نہیں ہے.

پھر فرماتے ہیں : جو رحمتیں اور برکتیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر نازل ہوتی ہیں ان کا فیض امت پر بھی عام ہے اور غیر متناہی ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ہمیشہ عروج ہی آتا رہتا ہے اور امت کو بھی جو کچھ توسل سے ملتا ہے وہ بھی سب سے افضل ہے اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیاء کرام علی نبینا و علیہم الصلاۃ والسلام میں سب سے افضل ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ساری امتوں سے افضل ہے  تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور جو ہر فضیلت اور خیر کا سر چشمہ ہے ساری زمین سے کیوں افضل نہ ہو.

 پھر فرماتے پیں: علامہ جوزی رحمہ اللہ نے " الوفاء " میں أمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے حدیث مبارکہ روایت کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تولوگوں میں اختلاف رائے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کہاں کی جائے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم جگہ وہی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا ہے.

امام یحیی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کی جگہ پر لوگوں میں اختلاف رائے ہوا تو حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم جگہ وہی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا ہے تو اس بات پر سب راضی ہو گئے. میں کہتا ہوں یہی قول قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تفضیل کی دلیل ہے کیونکہ سب صحابی اس پر خاموش رہے اوروہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کرنے میں مشغول ہو گئے.

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا اے یار غار رسول بتائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائےتو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جہاں آپ نے وصال فرمایا بے شک اللہ تعالی نے سب پاکیزہ جگہ پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی روح مبارکہ قبض کی ہے.

" مسند ابو یعلی " میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں : " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے " اللہ تعالی ہر نبی کی روح وہیں قبض کرتا ہے جو جگہ اسےسب سے زیادہ محبوب ہو "

تو میں یہ کہتا ہوں کہ رسول کو بھی وہی جگہ زیادہ پسند ہو گی جو اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہو گی کیونکہ حب رسول حب الٰہی کے تابع ہوتی ہے اور جو جگہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پسند ہو وہ سب سے افضل کیوں نہیں ہو گی ؟" 
( الشفاء بتعریف حقوق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم 2/91 دار الكتب العلميۃ) 

*اکابرین اہل السنت کا مذہب :*

روضۂ اقدس میں جہاں آپ رونق افروز ہیں اور جو مٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کے نیچے ہے اس کی قدر اہل السنت کے مذہب میں عرش بریں سے بھی زیادہ ہے اس لئے کہ عرش خدا تعالیٰ کا مكان نہیں ہے کیونکہ وہ مكان سے وراء الوراء ہے اور جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ ہے وہی ریاض الجنۃ کہلاتا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں ہیں ،ورنہ اور مقامات کو بھی ایسا شرف حاصل ہونا چاہیئے 

الإجماع على أن مكان جسد النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من الکونين

اکابرین کے نزدیک اس بات میں تو اختلاف ہے کہ مکہ زیادہ افضل ہے یا مدینہ کیونکہ دونوں کی فضیلت اپنی جگہ احادیث میں آئی ہے لیکن یہ اختلاف روضۃ الرسول کے ٹکڑے کو مستثنی کرکے ہے کیونکہ اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ ٹکڑا دنیا کی ہر چیز سے افضل ہے حتی کہ عرش، کرسی، قلم، عرش تھامنے والے فرشتے اور کعبہ سے بھی اور اس پر کسی نے اختلاف نہیں کیا سوائے چند متاخرین کے۔ اور یہ مسئلہ جمہور میں متفق علیہ ہے۔ اسی طرح کی عبارات اکابرین اہلسنت سے منقول ہیں جو آپ عنقریب ملاحظہ کریں گے۔

  ابن عقیل حنبلی رحمہ للہ کے نزدیک:
ابن القیم نے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں لکھا

قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ 

فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل ، 

وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة 

لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح
ترجمہ:"ابن عقیل حنبلی رحمہ للہ  نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہے اور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا۔[بدائع الفوائد ج3 ص655]

ابن القیم نے اس کو عنوان ھل حجرۃ النبی افضل ام کعبه کے عنوان کے تحت لکھا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ابن القیم بھی اس کے قائل ہیں اور یہ لکھ کر رد نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کے منکر نہیں۔

قاضی عیاض ، علامہ خفاجی اور امام سبکی رحمہم اللہ کے نزدیک:
قاضی عیاض نے کتاب الشفا میں لکھا
ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض
فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي
بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله
ترجمہ: اور اس کے خلاف کوئی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے اس پرعلامہ خفاجی رحمہ اللہ نے تعلیق لکھی کہ بلکہ [آپ کی قبر مبارک کی جگہ یا مٹی] آسمان، عرش، کعبہ سے بھی افضل ہے اور اس کے مثل امام سبکی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا۔[كتاب الشفا ج 2 ص 76 اور نسیم الریاض ج3 صفحہ 531]


علامہ حصفکی حنفی رحمہ اللہ کے نزدیک:
علامہ حصفکی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

لا حرم للمدينة عندنا ومكة أفضل منها على الراجح

إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى منالكعبة والعرش والكرسي .وزيارة قبره مندوبة , بل قيل واجبة لمن له سعة

ترجمہ: ہمارے نزدیک مدینہ سے بڑھ کر کوئی مقدس جگہ نہیں البتہ مکہ مدینے سے افضل ہے الا یہ کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء[ اس مٹی سے] مس ہوں تو مدینہ [کی مٹی ] بلکل افضل ہے حتی کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی اور ہمارے نزدیک روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم مندوب ہے۔ بلکہ واجب ہے جس کی استطاعت ہو ۔[الدر المختار ج2 ص 689]

علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے نزدیک:
علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة. ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها،
وہ ٹکڑا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے ساتھ ضم ہے اس کی افضلیت پر اجماع ہے حتی کہ اس کعبہ سے بھی افضل ہے جو اصل شہر مدینہ [سوائے اس حصے کے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ و سلم مدفون ہیں اس ] سے فضیلت میں زیادہ ہے۔ بلکہ عرش سے بھی زیادہ۔ اس کی تصریح علمائے حنابلہ میں سے ابن عقیل نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کی مقیم گاہیں اور روح اشرف ہیں زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے۔اور ان کی قبریں بھی افضل ہیں ۔ [التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة السخاوي الصفحة : 12]

ملاعلی قاری رحمہ اللہ کے نزدیک
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کہا
أجمعوا على أنّ أفضل البلاد مكّة والمدينة زادهما الله شرفًا وتعظيمًا ، ثم اختلفوا بينهما أي في الفضل بينهما ، فقيل : مكة أفضل من المدينة ، وهو مذهب الأئمة الثلاثة وهو المرويُّ عن بعض الصحابة ، وقيل : المدينة أفضل من مكة ، وهو قول بعض المالكية ومن تبعهم من الشافعية ، وقيل بالتسوية بينهما۔۔۔
إلى أن قال والخلاف أي الاختلاف المذكور محصورٌ فيما عدا موضع القبر المقدس ، قال الجمهور : فما ضمّ أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع حتى من الكعبة ومن العرش
اس بات پر تو اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ نے مکہ اور مدینہ کوافضل بنایا اور شرف و تعظیم سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پھر اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں زیادہ افضل کون ہے۔ بعض نے کہا مکہ مدینے سے افضل ہے اور یہ آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے اور بعض صحابہ سے مروی ہے۔ اور بعض نے کہا مدینہ مکے سے افضل ہے اور یہ قول ہے بعض مالکی اور شافعی علماء کا اور بعض نے کہا دونوں کے درمیان توازن ہے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا لیکن یہ اختلاف قبر مبارک کو خارج بحث کرکے ہے کیونکہ جمہور نے فرمایا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء شریفہ ضم زمین ہیں وہ ٹکڑا اجماع کے مطابق تمام زمین سے افضل ہے حتی کہ کعبہ اور عرش سے بھی۔[المسلك المتقسط في المنسك المتوسط ص351 - ص352]

علامہ ابن عابدین حنفی، قاضی عیاض، ابن عقیل، علامہ تاج الدین فاکھی اور علامہ زکریا بن شرف نووی رحمہم اللہ کے نزدیک:
ابن عابدین حنفی رحمہ اللہ نے اس باب میں فرمایا کہ
والخلاف فيما عدا موضع القبر المقدس , فما ضم أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع . قال شارحه : وكذا أي الخلاف في غير البيت : فإن الكعبة أفضل من المدينة ما عدا الضريح الأقدس وكذا الضريح أفضل من المسجد الحرام . وقد نقل القاضي عياضوغيره الإجماع على تفضيله حتى على الكعبة , وأن الخلاف فيما عداه . ونقل عن ابن عقيل الحنبلي أن تلك البقعة أفضل من العرش , وقد وافقه السادة البكريون على ذلك.وقد صرح التاج الفاكهي بتفضيل الأرض على السموات لحلوله صلى الله عليه وسلم بها , وحكاه بعضهم على الأكثرين لخلق الأنبياء منها ودفنهم فيها وقال النووي : الجمهور على تفضيل السماء على الأرض , فينبغي أن يستثنى منها مواضع ضم أعضاء الأنبياء للجمع بين أقوال العلماء

مکے اور مدینے میں افضلیت کی بحث قبر اقدس کو خارج از بحث رکھ کر ہے کیونکہ یہ اجماع سے ثابت ہے کہ جہاں آنحضرت کا جسد اطہر مس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے۔
شارح نے فرمایا کہ یہ اختلاف نبی کے آخری ٹھکانے کو چھوڑ کر ہے ۔ اسی لئے کعبہ مدینہ سے افضل ہے سوائے روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو چھوڑ کر اور اسی طرح روضۃ الرسول مسجد حرام سے زیادہ افضل ہے۔ تحقیق کہ قاضی عیاض مالکی نے اس کی افضلیت پر اجماع نقل کیا ہےحتی کہ کعبہ پر بھی اور جو اختلاف ہے وہ اس [ٹکڑائے زمین ] کو چھوڑ کر ہے ۔ اور انہوں نے ابن عقیل جنبلی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ وہ ٹکڑا [جہاں نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم مدفون ہیں ] عرش سے بھی افضل ہے اور جمہور اس پر متفق ہیں۔ اور علامہ تاج فاکھی نے تصریح کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین میں مدفون ہونے سے زمین آسمان سے افضل ہے۔ اور بعض نے کثیر تعداد سے روایت کیا کہ تمام انبیاءاسی سے ہیں [یعنی مٹی سے بنے ہیں] اور اسی میں مدفون ہیں [لہذا زمین افضل ہے آسمان سے] لیکن علامہ نووی رحمہ اللہ نے جمہور سے روایت کیا ہے کہ آسمان زمین سے افضل ہے البتہ اس میں نبی صلی للہ علیہ سلم کے مدفن کی استثناء ضرور ہے جیسا کہ جاننے والوں کے اقوال اس پر متفق ہیں۔[رد المختار ج 2 ص 688]


علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کے نزدیک:
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے لکھا
وهي كبقية الحرم أفضل الأرض عندنا وعند جمهور العلماء للأخبار الصحيحةالمصرحة بذلك وما عارضها بعضه ضعيف وبعضه موضوع كما بينته في الحاشية ومنه خبر { إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى } فهو موضوع اتفاقا ، وإنما صح ذلك منغير نزاع فيه في مكة إلا التربة التي ضمت أعضاءه الكريمة صلى الله عليه وسلم فهيأفضل إجماعا حتى من العرش
اور یہ کہ حرم کعبہ میرے اور اخبار صحیحہ صریحہ سے جمہور کے نزدیک تمام زمین سے افضل ہے اور جو چند دلیلیں اس کے معارض ہیں ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض موضوع مثلا حاشیہ میں جو دلیل ہے کہ إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى یہ بالاتفاق موضوع ہے ۔ لیکن اس طرح کی خبریں مکہ [کی فضیلت] کے بارے میں بلااختلاف درست ہیں سوائے اس مٹی کی فضیلت کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے اعضائے مقدسہ کے ساتھ مس ہے حتی کہ عرش سے بھی ۔ یہ فضیلت اجماع سے ثابت ہے[تحفة المحتاج ج 5 ص 167]

امام الوہابیہ  قاضی شوکانی کے نزدیک:
قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں نقل کیا ہے
قال القاضى عياض ، إن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض
قاضی عیاض نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر والا ٹکڑا تمام زمین سے افضل ہے۔[نيل الأوطار - الشوكاني ج 5 ص 99] اور اس پر رد بھی نہیں فرمایا جوکہ اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی شوکانی  بھی اسی کے قائل ہیں۔

تُربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور سے متصل ہے کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے [1]صرح بہ عقیل الحنبلی وتلقاہ العلماء بالقبول (اس پر ابو عقیل حنبلی نے تصریح کی اور تمام علماء نے اسے قبول کیا)

باقی مزار شریف کا بالائی حصہ اس میں داخل نہیں کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربتِ اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے، اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلك اول اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ ہے، طبرانی کی حدیث میں تصریح ہے کہ المدینۃ افضل من مکۃ [2](مدینہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) مکہ سے افضل ہے۔ ت) والله تعالٰی اعلم۔
(فتاوی رضویہ) 

ان حوالوں سے یہ بات ثابت
 ہوگئی کہ وہ ٹکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں وہ تمام اشیاء سے افضل ہے حتی کہ عرش اور کعبہ سے بھی اور جمہور کا اس پر اجماع ہے۔ اور جمہور کے اجماء کے مقابلے میں کسی کا تفرد کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ممکن ہے کہ کوئی بزرگ ایسا ہو جس کا عقیدہ اس کے برخلاف ہو لیکن اس مسئلے میں ہم اس بزرگ کو نہیں مانیں گے کیونکہ جمہور کا اجماع ایک طرف ہے اور ان بزرگ کی شان میں گستاخی کئے بغیر یہ مانا جائے گا کہ ان سے اس مسئلے میں کوئی ذھول ہوگیا ہے اللہ ان کی خطا کو معاف فرمائے اور ان کو اچھی نیت کا ثواب عطا کرے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔