بدمزہب وہابی دیوبند رسالت مآب سےسوال کرنےسےمانگنےسےمنع کرتےاور اسکوشرک کہتےہیں آئیےاس عقیدہ کو چند احادیث کی روشنی میں جانتےہیں.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْلُ ابْنُ زِیَادِ نِالسَّکْسَکِیُّ نَا الْاَوْزَاعِیُّ عَنْ یَحْیَی ابْنِ اَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَبِیْعَۃَ بْنَ کَعْبِ نِالْاَسْلَمِیَّ یَقُوْلُ کُنْتُ اَبِیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٰتِیْہِ بِوَضُوْئِہٖ وَبِحَاجَتِہِ فَقَالَ سَلْنِی فَقُلْتُ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ اَوْغَیْرُ ذٰلِکَ قُلْتُ ہَوَ ذَاکَ قَالَ فَاَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ ۔
ترجمہ: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک رات میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں گزاری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے وضو اور قضائے حاجت کے لئے پانی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ مجھ سے مانگ لو۔ پس میں عرض گزار ہوا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت فرمایا کہ اس کے سوا اور کچھ؟ عرض کی کہ یہی کافی ہے۔ فرمایا کہ زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرتے رہنا ۔ (ابو داؤد‘ عربی‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب وقت قیام النبی من اللیل‘ حدیث نمبر 1320‘ ص 197‘ مطبوعہ دارالسلام ‘ ریاض سعودی عرب)۔(ابو داؤد ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ باب وقت قیام النبی من اللیل‘ حدیث نمبر1306‘ ص 491‘مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)
مختصر تشریح : یہ روایت سنن ابو دائود کے علاوہ صحیح مسلم‘ سنن ابن ماجہ اورمعجم کبیر طبرانی میں بھی موجود ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پروردگار عالم جل جلالہ‘ کے خلیفہ اعظم محبوب اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دریائے کرم جوش میں آیا تو حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ سل سنن ابودائود میں سلنی ہے یعنی مجھ سے مانگ لو۔ طبرانی میں ہے۔ سلنی فاعطیک مجھ سے مانگ لو میں عطا کردوں گا۔ موجودہ شرک فروش ٹولے کے بقول تو یہ فرمانا تھا کہ جو کچھ مانگنا ہو خدا سے مانگو اور ہم بھی دعا کریں گے بلکہ اس کے برعکس فرمایا کہ ہم سے مانگو میں عطا فرمادوں گا۔ گویا یہ خلافت عُظمیٰ کا اظہار فرمایا جارہاہے اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہمارے کاشانہ اقدس میں نظر آئے اس میں سے جو جی چاہے مانگ لو۔ بلکہ فرمایا کہ جو جی میں آئے ہم سے مانگو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی یہی عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ باری تعالیٰ جل جلالہ‘ کے خلیفہ اعظم اور ماذون و مختار ہیں لہذا دنیا و آخرت کی ہر چیز دے سکتے ہیں۔ اسی لئے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف جنت مانگی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت مانگی۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مانگنا شرک ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود ایسا کیوں فرماتے؟ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کیوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مانگتے ؟ محدثین کرام کیوں ایسی حدیثوں کو کتب احادیث میں درج کرتے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو شرک کی تعلیم دی۔ کیا حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنت میں رفاقت مانگ کر شرک کیا؟ کیا محدثین کرام نے ایسی حدیثوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے کر شرک کی نشرواشاعت کی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اگر توحید کے نام نہاد علمبرداروں کے نزدیک یہ شرک نہیں ہے تو ان مہربانوں کو بھولے بھالے مسلمانوں پر ترس کھاتے ہوئے توحید اور شرک کی تعریفوں پر نظرثانی کرلینی چاہئے جبکہ ایسا کرنے سے مسلمانوں کو مشرک ٹھہرا کر ان کے خرمن اتحاد میں آگ لگانے کا ابلیسی منصوبہ دریا برد ہوجائے گا اور بڑی حد تک اتفاق و اتحاد کی جانفرا ہوائیں چلنے لگیں گی ۔
اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ کے اندر اس حدیث کی شرح لکھتے ہوئے خاتم المحققین شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی ۱۰۵۲ھ / ۱۶۴۲ئ) نے اہل حق کی ترجمانی کا فریضہ یوں ادا کیا ۔
از اطلاق سوال کرد کہ فرمود سل بخواہ تخصیص
نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ہمہ بدست
ہمت و کرامت اوست صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
ہر چہ خواہد وہرکہ راخواہد باذن پروردگار خود دہد
ترجمہ : مطلق سوال کرنے کے لئے فرمانا کہ مانگ لو اور کسی خاص مطلوب چیز کی تخصیص نہ کرنا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دست مبارک کی ہمت وکرامت سے وابستہ ہیں کہ جو چیز چاہیں اور جس چیز کے لئے چاہیں اپنے پروردگار جل جلالہ‘ کے حکم سے عطا فرمائیں۔
اسی حدیث کی شرح لکھتے ہوئے گیارہویں صدی کے مجدد برحق اور اہلسنت و جماعت کے مایہ ناز محقق و محدث علامہ علی قاری علیہ رحمتہ اللہ علیہ (۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ئ) نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حقیقت کے چہرے سے یوں نقاب ہٹائی ہے۔
یُؤْخَذُ مِنْ اِطْلَاقِہ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اﷲَ تَعَالٰی مَکَّنَہٗ مِنْ اِعْطَآئِ کُلِّ مَا اَرَادَمِنْ خَزَائِنِ الْحَقِّ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس مطلق حکم فرمانے سے معلوم ہورہاہے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں مقرر فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے خزانوں سے جس کو جو چیز چاہیں عطا فرمائیں ۔
اس لئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲعلیہ نے مسلمانوں کو یوں فہمائش کی ہے۔
اگر خیریت دنیا و عقبی آرزو داری
بدرگاہش بیاوہرچہ می خواہی تمنا کن
امام محمد بوصیری رحمتہ اﷲ علیہ نے قصیدہ بردہ شریف میں اس عقیدے کو یوں نظم فرمایا۔
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا
وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ
ماضی قریب کے ایک عاشق صادق امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عقیدہ یوں بیان فرمایا ہے ۔
مانگیں گے‘ مانگے جائیں گے‘ منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ ثَنَا اَبُو اُسَامَۃَ وَعَبْدُاﷲِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اَبِیْ سَعِیْدِ نِالْمَقْبُرِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَ مَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ ۔
ترجمہ: ابوبکر بن ابی شیبہ‘ ابو اسامہ ‘ عبداﷲ بن نمیر‘ عبیداﷲ بن عمر‘ سعید بن ابی سعید المقبری‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ اگر اُمَّت کا مشقت میں پڑنا مجھ پر گراں نہ ہوتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا ۔ (سنن ابن ماجہ‘ عربی‘ باب السواک‘ حدیث نمبر 287‘ص 44‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب) ۔ (سنن ابن ماجہ ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ باب السواک‘ حدیث نمبر304‘ ص 113‘مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)
رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ میں مسواک کو ہر نماز کے وقت ضروری قرار دے دیتا اس عقیدے کو ثابت کرتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شریعت کا مختار بنایا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔