Pages

Friday, 24 May 2019

کیا امت مسلمہ شرک کر سکتی ہے؟*

*کیا امت مسلمہ شرک کر سکتی ہے؟*

ایک محترم بھائی نے کسی خارجی کی پوسٹ بنام "کیا امت مسلمہ شرک نہیں کر سکتی؟" بھیجی اور اسے پڑھ کر جواب لکھنے کا حکم فرمایا.

پوسٹ کا جواب لکھنے سے پہلے کیونکہ اس پوسٹ میں خیانت، دھوکہ دہی اور کذب بیانی سے کام لیا گیا ہے اس لیے اس ضمن میں دو احادیث مبارکہ بیان کر دوں جن میں دھوکہ دہی کی مذمت اور اس پر وعید بیان کی گئی ہے.

سنن ابو داؤد شریف میں حدیث پاک ہے: عن عبد اللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاکم والکذب فان الکذب یھدی الی الفجور۔ ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جھوٹ سے پرہیز کرو، کیونکہ جھوٹ فسق و فجو ر کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجو ر دوزخ کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بات کہتا ہے اور جھوٹ کاموقع تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (سنن ابو داؤد شریف، کتاب الادب، باب فی التشدید فی الکذب، حدیث نمبر4991﴾ نیز دھوکہ دہی کی مذمت کے متعلق امام ابو عبداللہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک علی الصحیحین میں روایت کی ہے: عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال المکر و الخدیعۃ والخیانۃ فی النار۔ ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مکر، دھوکہ دہی اور خیانت دوزخ میں لیجانے والے اعمال میں ہے- (مستدرک علی الصحیحین، کتاب الاھوال، حدیث نمبر8948﴾

اب آئیے اس پوسٹ میں جو پہلی حدیث پاک بیان کی گئی جس میں امت مسلمہ کے شرک میں مبتلا نہ ہونے کی بشارت ہے اور اس پر کیے گئے وہابیانہ  تبصرہ کی طرف.

حديث رقم 39 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401، وفي کتاب : الرقاق، باب : مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيها، 5 / 2361، الرقم : 6061، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم : 2296 وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153.]

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد"تم"(صحابہ رضی الله عنہ کی جماعت)شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔"

اس حدیث پاک نے کیونکہ وہابی مذہب کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اس لیے اسے جعل سازی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اسی حدیث میں اس کے علاوہ بھی کچھ باتیں ایسی ارشاد فرمائیں گئی ہیں جنہیں وہابی شرک سے تعبیر کرتے ہیں.

(1) ارشاد فرمایا کہ میں تمھارا پیشرو اور تم پر گواہ ہوں. ہر عقل مند جانتا ہے کہ گواہ وہ ہوتا ہے جو احوال کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے اور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام امت پر گواہ ہیں یعنی ہمارے اعمال انکے مشاہدہ میں ہیں.

(2) نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں. مگر وہابیوں کے نزدیک آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے کسی قسم کا اختیار ماننا شرک ہے. اور ان کے یہاں انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات اور اولیاء کرام رضی اللہ عنہم کی کرامات معانکا اپنا کوئی اختیار و عمل دخل نہیں ہوتا. یاد رہے کہ سلیمان علیہ السلام کو کچھ اختیارات عطا فرمائے گئے تھے انکا بیان قرآن مجید کی "سورہ ص" سے سن لیجیے اور عقائد وہابیہ کا باطل ہونا جانئیے.

 لَـهُ الرِّيْحَ تَجْرِىْ بِاَمْرِهٖ رُخَـآءً حَيْثُ اَصَابَ (36)

ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا کہ وہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا

وَالشَّيَاطِيْنَ كُلَّ بَنَّـآءٍ وَّغَوَّاصٍ (37

اور شیطانوں کو جو سب معمار اور غوطہ زن تھے۔

وَاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِى الْاَصْفَادِ(38)

اور دوسروں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

هٰذَا عَطَـآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (39)

یہ ہماری بخشش ہے پس احسان کر یا اپنے پاس رکھ کوئی حساب نہیں۔

(3) نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی حیات مبارکہ میں ہی قیامت تک کے احوال کا مشاہدہ فرمانا اور قیامت کے دن عطا کیے جانے والے خوض کو دیکھنا. تو خوارج سے سوال ہے کہ اور غیب دانی کس چیز کا نام ہے؟ وہ کہیں گے کہ اللہ پاک دکھاتا ہے. تو جناب کون بدبخت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم غیب اللہ پاک کے بتائے اور دکھائے بغیر جانتے اور دیکھتے ہیں؟ الحمدللہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ ایک ذرہ کا علم بھی اللہ پاک کے بغیر بتائے اور دکھائے کسی کے لیے ثابت کرنا شرک ہے تو جھگڑا کیسا اور شرک کی الزام تراشی کے کیا معنی؟ بقول شاعر

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

اب آئیے جناب کے اس مؤقف کی طرف کے شرک سے برات صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے تھی تو حدیث پاک کا دوسرا حصہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر منطبق ہو گا گا معاذاللہ مگر نبی علیہ السلام نے جو دنیا کی رغبت امت کے احوال کا مشاہدہ کر کے بیان فرمائی تھی اسے بھی ذاتی تشریح سے نمٹا کر امت پر شرک کے الزام لگانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی. اس حدیث پاک کی اصل شرح بخاری شریف کے مقبول ترین شارحین کی زبانی سنئیے.

1/ شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

{قولہ (ما اخاف علیکم ان تشرکو) ای علی مجموعہ لانّ ذالک قد مقع من البعض اعاذنا اللہ تعالی}

" نبی پاک ۖ کے اس فرمان (مجھے تمہارے متعلق شرک کا ڈر نہیں) کا مطلب یہ ہے کہ تم مجموعی طور پر شرک نہیں کرو گے اس لیے کہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد کی جانب سے شرک کا وقوع ہوا ہے، اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے-"

( فتح الباری:3/211)​

2/ علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

{ معناہ علی مجموعکم لانّ ذالک قد وقع من البعض والعیاذ باللہ تعالی}

( عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری: 8/157)​

3/ علامہ ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

{ ای ما اخاف علی جمیعکم الاشراک بل علی مجموعکم لانّذالک قد وقع من البعض}

( ارشاد الساری لشرح صحیح بخاری:2/440)

" ان ہر دو عبارات کا مفہوم بھی وہی ہے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت کا ہے-"

ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی تشریج سے معلوم ہوا کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر مشرک نہیں ہوگی بلکہ بعض افراد امت مسلمہ سے ایسے ہونگے جو شرک کے مرتکب ہوں گے. بالکل یہی بات اس پوسٹ میں بیان کی گئی اگلی دو احادیث میں بھی فرمائی گئی ہے. ان دونوں کا مضمون ایک ہی ہے پہلی روایت کو دوبارہ پڑھ کر دیکھئیے.

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ,859 فتنوں کا بیان : حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14 سلیمان بن حرب، محمد بن عیسی، حماد بن زید، ایوب، ابوقلابہ، ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو آزاد کردہ غلام ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا یا یوں فرمایا کہ میرے پرودگار نے میرے لیے زمین کو سکیڑ دیا پس مجھے زمین کے مشارق ومغا رب دکھائے گئے اور بیشک میری امت کی سلطنت عنقریب وہاں تک پہنچی گی جہاں تک میرے لیے زمین کو سمیٹا گیا اور مجھے دو خزانے سرخ وسفید دیے گئے اور بیشک میں نے اپنی پروردگار سے اپنی امت کے لیے یہ سوال کیا کہ انہیں کسی عام قحط سے ہلاک نہ کیجیے اور نہ ان کے اوپر ان کے علاوہ کوئی غیر دشمن مسلط کردے کہ وہ ان کو جڑ سے ختم کردے۔ اور بیشک میرے پروردگار نے مجھ سے فرمایا کہ اے محمد۔ بیشک میں جب فیصلہ کرتا ہوں تو پھر وہ رد نہیں ہوتا اور میں انہیں کسی عام قحط سے ہلاک نہیں کروں اور نہ ہی ان پر کوئی غیر دشمن مسلط کروں اگرچہ سارا کرہ ارض سے ان پر دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوجائیں یہاں تک کہ مسلمانوں میں سے آپس میں ہی بعض بعض کو ہلاک کردیں گے اور بعض بعض کو قید کردیں گے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں (مذہبی رہنماؤں) کا ڈر ہے اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی اور قیامت اس دن تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبائل بتوں کی عبادت کریں اور بیشک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت میں سے ایک طائفہ ہمیشہ حق پر رہے گی ابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ حق پر غالب رہے گی اور ان کے مخالفین انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے۔

اس روایت میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ بعض قبائل مشرکوں سے جا ملیں گے اور بتوں کی پوجا کریں گے. اب انصاف کی نظر سے دیکھئیے کہ بعض افراد کا شرک کرنا یا قرب قیامت میں بعض قبائل کے مشرکین سے جا ملنے کی روایت کو لے کر امت مسلمہ کی اکثریت کو مشرک ٹھہرنے والے کیا دجل و فریب سے کام نہیں لے رہے؟

وہابیوں کا امام اسماعیل دھلوی اپنی بدنام زمانہ کتاب تقویۃ الایمان میں لکھتا ہے کہ "شرک لوگوں میں بہت پھیل رہا ہے اور اصل توحید نایاب ہے لیکن اکثر لوگ شرک اور توحید کے معنی نہیں سمجھتے اور ایمان کا دعوٰی رکھتے ہیں."

اسی تقویۃ الایمان میں مندرجہ ذیل حدیث پاک نقل کر کے کیا تبصرہ کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں.

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شب وروز کا سلسلہ اس وقت ختم نہیں ہوگا ( یعنی یہ دنیا اس وقت تک فنا کے گھاٹ نہیں اترے گی اور قیامت نہیں آئے گی جب تک لات وعزی کی پوجا نہ کی جانے لگے گی ( حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ جب ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سنا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَي الدِّيْنِ كُلِّه وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ) 61۔ الصف : 9) تو چونکہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام مذاہب باطل میں مذہب اسلام سچا اور غالب ہے اور کم سے کم عرب میں بت پرستی کا رواج ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا، اس لئے یقین کی حد تک ) میرا خیال تھا کہ بت پرستی کا خاتمہ ہونے والا ہے ( اور یہ کہ آئندہ کبھی بت پرستی نہیں ہوگی، لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر دے رہے ہیں ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درحقیقت ایسا ہی ہوگا ( یعنی اسلام کی روشنی غالب رہے گی اور کفر وشرک کا چراغ گل رہے گا مگر اس وقت تک کے لئے ) جب تک کہ اللہ تعالیٰ چاہے گا ( چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس بات کو یوں واضح فرمایا ہے کہ ) پھر اللہ تعالیٰ ایک خوشبودار ہوا بھیجے گا جس کے ذریعہ ہر وہ شخص مر جائے گا جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا اور ( دنیا میں ) صرف وہی شخص باقی بچے گا جس میں کوئی نیکی نہیں ہوگی ( یعنی اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچے گا جس میں ایمان واسلام ہو جو قرآن پڑھنے والا ، نماز ، روزہ ، حج اور دوسرے ارکان اسلام ادا کرنے والا ہو اور علم دین کا حامل ہو ) پس تمام لوگ اپنے آباء واجداد کے دین یعنی کفر وشرک کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ " ( مسلم) مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی ۔ حدیث 90

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تبصرہ کیا ہے کہ

" اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخر زمانہ میں قدیم شرک بھی رائج ہو گا، سو پیغمبر خدا صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمانے کے موافق ہوا، یعنی مسلمان لوگ اپنے نبی ولی امام و شہیدوں کے ساتھ معاملہ شرک کا کرتے ہیں، اسی طرح قدیم شرک بھی پھیل رہا ہے اور کافروں کے بتوں کو بھی مانتے ہیں."

آپ حدیث پاک میں پڑھ آئے کہ یہ اس وقت ہو گا جبکہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو گا وہ بھی مر چکا ہو گا مگر وہابیوں کا بابا کہہ رہا ہے کہ" سو پیغمبر خدا صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کہنے کے موافق ہوا" یعنی اسماعیل دہلوی کے وقت کوئی ایک صاحب ایمان زندہ نہیں تھا. شاید وہابیوں کے بابے اور اسکے متبعین کا معاملہ ایسا ہی ہو مگر الحمدللہ آج بھی دنیا صاحبان ایمان سے بھری پڑی ہے اور جناب عیسی علیہ السلام اور امام مہدی رضی اللہ عنہ کی آمد کے بعد ساری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہونا بھی ابھی باقی ہے.

مگر صرف مسلمانوں کو مشرک ثابت کرنے کے لیے کیسی فریب دہی سے کام لیا گیا اور یہی وہابی مذہب کی بنیاد ہے.

اپنی اسی کتاب کے پہلے ہی باب ےاپنے خارجی مذہب کے مطابق مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہونے والی آیت کو قرآن کی تحریف کرنے والا ترجمہ کر کے امت مسلمہ کی اکثریت کو  مشرک قرار دیتا ہے. اسکے الفاظ ملاحظہ فرمائیں.

" اللہ صاحب نے سورہ یوسف میں

وما یومن اکثرھم بااللہ الا و ھم مشرکون

اور نہیں مسلمان ہیں اکثر لوگ مگر شرک کرتے ہیں.

یعنی اکثر لوگ جو دعوی ایمان کا رکھتے ہیں سو شرک میں مبتلا ہیں "

اصل ترجمہ : اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ اللہ پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے.

یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے مگر ساتھ ساتھ میں شرک بھی کرتے تھے. اگر اس خارجی کے مطابق یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جیسے کہ اس نے غلط ترجمہ اور تشریح کی تو معاذاللہ اس سے سب پہلے مراد تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں گے. معاذاللہ ثم معاذاللہ

اب سنیے کہ وہ کون سا گروہ ہے جس کے ساتھ امت کو وابستہ رہنے کا حکم ملا ہےجو ہمیشہ حق پر قائم رہا اور قیامت تک رہے گا.

انس رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ"میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)" سنن ابن_ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم

دوسری روایت میں عبد اللہ ابن عمر سے حدیث میں ہے = کہ۔۔۔ بس تم سواد اعظم کا اتباع (پیروی) کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.  مستدرک حاکم: کتاب العلم، 1/115

حدیث پاک میں امت کی اکثریت جو اہل سنت پر مشتمل ہے کے ساتھ رہنے کا حکم ہے مگر وہابیوں کو مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک امت مسلمہ کی اکثریت کفر و شرک و بدعات میں ملوث نظر آتی ہے معاذاللہ

پوسٹ کے آخر میں جو حدیث پاک آدھی کاٹ کر اپنے خارجی مذہب کے مطابق بنانے کی کوشش کی گئی اسے پھر پڑھیں اور پھر پوری روایت جو کہ امت سے شرک کی نفی بیان کرتی ہے پڑھ کر دھوکہ بازی میں لاجواب وہابیت کا اصل چہرہ دیکھیں..

پوسٹ میں کاٹ کر بیان کی گئی روایت

[مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے:-سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1085 حدیث مرفوع ۔

اب یہ روایت پوری پڑھئیے

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَی أُمَّتِي الْإِشْرَاکُ بِاللَّهِ أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَقُولُ يَعْبُدُونَ شَمْسًا وَلَا قَمَرًا وَلَا وَثَنًا وَلَکِنْ أَعْمَالًا لِغَيْرِ اللَّهِ وَشَهْوَةً خَفِيَّةً

حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یا چاند یا بت کو پوجیں گے لیکن عمل کریں گے غیر کے لئے(دکھاوا، ریاکاری کے لیے) اور دوسری چیز کا ڈر ہے وہ شہوت خفیہ ہے۔

سنن ابن ماجہ ۔ جلد سوم ۔ زہد کا بیان ۔ حدیث 1085

یاد رہے کہ جس حدیث پاک میں بعض قبائل کے مشرکین سے مل جانے اور بتوں کی پوجا کرنے کا شروع کرنے کا بیان ہے اسکی عملی صورت ہم آج خود وہابیوں کے یہاں سرزمین عرب پر مندروں اور چرچوں کی تعمیر کی صورت میں دیکھ رہے ہیں. یعنی خود وہابی کے داتا و پالن ہار مشرکین سے جا ملے ہیں.

باقی مشرکین والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کر کہ انہیں مشرک قرار دینا خوارج کا پرانا طریقہ ہے اور اس فتنہ سے نبی پاک صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امت کو پہلے ہی خبردار فرما دیا تھا.

اس حوالے سے دو روایات ملاحظہ فرمائیں.

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (خوارج کو) بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔ (1-بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)

 ،(2. ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)، (3. ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے.

"حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا" راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا،اے اﷲ کے نبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم !  ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا؟ جس نے الزام لگایا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔ (الحديث رقم 25 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220.)

اللہ پاک دھوکہ باز خارجیوں کے وسوسوں سے امت مسلمہ کے ایمانوں کی حفاظت فرمائے. آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔