*کیا اللہ کے سوا کسی کو الہ (معبود) جانے بغیر پکارنا بھی شرک ہے؟*
قرآن کریم ارشاد ہے
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔ المائدة،( 5 : 55
’’بیشک تمہارا ولی (دوست، مددگار) تو اﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔‘‘
ایک مقام پر ارشاد ہے
سورہ التحريم،( 66:4)فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ
’’بیشک اللہ اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے بھی مددگار ہیں۔‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد
وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ
"ان کو اللہ اور رسول نے غنی یعنی مالدار کر دیا. "( 9 : 74)
نبی پاک علیہ السلام نے اپنے ِصحابی ربیعہ بن کعب رضی اللّٰہ عنہ سے خوش ہو کر فرمایا " مانگو کیا مانگتے ہو؟ انہوں نے عرض کی (اسئلک) آپ سے مانگتا ہوں جنت میں آپ کی رفاقت. فرمایا کچھ اور مانگنا ہے؟ عرض کی بس یہی. فرمایا کثرت نوافل سے میری مدد کر. (مسلم شریف کتاب الصلاۃ)
مشکوۃ شریف کے دونوں شارحین ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دھلوی اد حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی علیہ السلام جس کو جو چاہیں اللہ کے حکم سے عطا فرما دیں. (آج تک کسی نے دونوں بزرگوں کو شرک کہا ہو تو ہمارے علم میں بھی لایا جائے جبکہ سنی اور وہابیوں کے دونوں گروہ یعنی دیوبندی اور اہلحدیث ان کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔)
ام المومنین حضرت میمونہ بنت ہارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے لبیک لبیک لبیک فرمایا اور اس کے فوراً بعد نصرت نصرت نصرت فرمایا، میں نے عرض کی یا رسول اللہ اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ”عمر بن سالم رضی اللہ عنہ اپنے سفر سے مدینہ کی جانب واپس آرہے ہیں اور راستے میں انہیں قریش مکہ سے حملہ کا خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے مجھے مدد کے لئے پکارا اور کہا کہ یارسول اللہ میری مدد فرمایئے اور میں جواب میں یہ کہہ رہا تھا لبیک لبیک لبیک (میں نے تمہاری مدد کردی)“ ۔( معجم صغیر لطبرانی،جلد دوم)
یہ روایت بانیء فرقہ وہابیہ محمد بن عبدالوھاب نجدی کے بیٹے عبداللہ بن محمد بن عبدالوھاب نجدی نے اپنی کتاب "مختصر سیرت الرسول " میں بھی لکھی ہے جو مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور میں صفحہ 333 پر اور جامعہ العلوم الاثریہ جہلم سے چھپنے والی کتاب کے صفحہ 528 پر بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ تین دن کی مسافت سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فریاد کی گئی اور آپ علیہ السلام نے سماعت فرمائی
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں قحط پڑھ گیا. حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللّٰہ عنہ حضور علیہ السلام کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور عرض کی. یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے بارش کی دعا مانگیے کیونکہ ہم لوگ ھلاک ہوئے جا رہے ہیں. خواب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا. عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لیے بارش کی دعا مانگے. انہیں بارش دی جائے گی اور انہیں کہو کے اِحتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہیں. وہ صحابی رضی اللّٰہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ماجرا سنایا. حضرت عمر رو دئیے. اور کہا یا اللہ : میں اپنی بساط بھر کوتاہی نہیں کرتا. (الاستیعاب علامہ قرطبی)
فارق اعظم رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں 18 ھجری میں دوبارہ قحط واقع ہوا. حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللّٰہ عنہ سے انکی قوم بنو مزینہ نے کہا, ہم مرے جا رہے ہیں. کوئ بکری ذبح کیجیے. فرمایا بکریوں میں کچھ نہیں رکھا. اصرار پر ایک بکری ذبح کی, جب کھال کھینچی تو نیچے سرخ ہڈی تھی. یہ دیکھ کر حضرت بلال مزنی رضی اللّٰہ عنہ نے پکارا. یا محمداہ! رات ہوئ تو خواب میں دیکھا رسول اللہ علیہ السلام فرما رہے ہیں تمھیں زندگی مبارک ہو.(البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد 7 ص 91)
حضرت اوس بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں قحط آیا. لوگوں نے امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے شکایت کی. آپ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا. " نبی اکرم علیہ السلام کے مزار مبارک کو دیکھو اور آسمان کی طرف اس کا روشن دان کھول دو تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے. انہوں نے ایسا ہی کیا. اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگا, اونٹ موٹے ہو گئے حتی کہ چربی سے انکے بدن پھٹنے لگے یعنی بہت فربہ ہو گئے. چنانچہ اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا. ".(سنن دارامی جلد اول، باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ بعد موتہ، رقم الحدیث 92)
امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ" حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی۔
(المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311
شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371، دار الکتب العلمیۃ
احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی میں اور
امام جلال الدین سیوطی نے الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے
حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں
اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے
بلکہ ابن تیمیہ نےکہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کوفتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح کہا ہے)
جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی. جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی. مقابلہ بہت سخت تھا. ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے. حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ سپہ سالار تھے. انہوں نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے مسلمانوں کی علامت کے ساتھ ندا کی. یا محمداہ اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا. (البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 324).
حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے حضرت کعب بن ضمرہ رضی اللّٰہ عنہما کو ایک ہزار کا لشکر دے کر حلب کی طرف روانہ کیا. جب وہ حلب پہنچے تو یوقنا پانچ ہزار افراد کے ساتھ حملہ آور ہوا. مسلمان جم کر لڑے اتنے میں پانچ ہزار اورں نےحملہ کر دیا. اس خطرناک صورتحال میں حضرت کعب بن جمرہ نے جھنڈا تھامے ہوئے بلند آواز سے نعرہ لگایا یا محمد! یا محمد یا نصراللہ انزل. یا محمد یا محمد اے اللہ کی مدد نزول فرما. مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے اور کمال ثابت قدمی سے لڑے اور فتح پائی. (فتوح الشام, جلد 1 ص 96).
ایسے ہی فتح بہسنا میں ایک دن رات بھر لڑائ ہوتی رہی اور مسلمانوں کا شعار تھا یا محمد یا محمد جا نصر اللہ انزل پکارنا تھا.(فتوح الشام جلد 2)
علامہ ابن کثیر حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کے کے زمانہ خلافت کے احوال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس زمانہ کا شعار یا محمداہ پکارنا تھا".)البدایہ والنہایہ جلد 6 ص 324 مطبوعہ دارلفکر بیروت).
امام عبدالرحمن بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا. آپ رضی اللّٰہ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا. میں نے عرض کی اسے پکاریئے جو آپ کو سب سے محبوب ہے. انہوں نے کہا یا محمد. وہ اسی وقت بھلے چنگے ہو گئے گویا قید سے آزاد کر دیے گئے ہوں.(کتاب الاذکار باب مایقول اذا اخدرت, امام نووی صفحہ 271 ).
حضرت زینب بنت مولا علی رضی اللّٰہ عنہما نے کربلا کی اسیری میں پڑھا. "یا محمداہ یا محمداہ صل علیک و ملک السماہ ھذا حسین بالعراہ........... ان کی پرسوز آواز نے ہر اپنے بیگانے کا رلا دیا. (البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 193).
امام زین العابدین اپن مشہور نعتیہ قصدہ میں فرماتے ہیں.
یارحمۃ للعالمین ادرک الذین العابدین.
محبوس ایدی الظالمین فی موکب المذدہم
ترجمہ : اے رحمۃ للعالمین زین العابدین کی مدد کو پہنچو. وہ اژدھام میں ظالموں کی قید میں ہے.
امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے لیے روانہ فرمادیا۔ آپ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدنبوی کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یَاسَارِیَۃُ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اورمدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔آج امیر المؤمنین نے انہیں کیونکر اورکیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو ۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا اورعساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ، بیہقی، طبرانی ،ابو نعیم وتاریخ الخلفاء)
حضرت امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرزمین روم میں مجاہدین اسلام کا ایک لشکر بھیجا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد بالکل ہی اچانک مدینہ منورہ میں نہایت ہی بلندآواز سے آپ نے دو مرتبہ یہ فرمایا : یَالَبَّیْکَاہُ!یَالَبَّیْکَاہُ! (یعنی اے شخص! میں تیری پکار پر حاضر ہوں)اہل مدینہ حیران رہ گئے اوران کی سمجھ میں کچھ بھی آیا کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس فریاد کرنے والے کی پکار کا جواب دے رہے ہیں؟ لیکن جب کچھ دنوں کے بعد وہ لشکر مدینہ منورہ واپس آیا اوراس لشکر کا سپہ سالاراپنی فتوحات اور اپنے جنگی کارناموں کاذکر کر نے لگا تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑدو! پہلے یہ بتاؤ کہ جس مجاہد کو تم نے زبردستی دریا میں اتاراتھا اوراس نے یَاعُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ! (اے میرے عمر!میری خبرلیجئے ) پکارا تھا اس کا کیا واقعہ تھا. سپہ سالارنے فاروقی جلال سے سہم کر کانپتے ہوئے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی دریا کے پار اتارنا تھا اس لئے میں نے پانی کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کو دریا میں اترنے کا حکم دیا ،چونکہ موسم بہت ہی سرد تھا اور زور دار ہوائیں چل رہی تھیں اس لئے اس کو سردی لگ گئی اوراس نے دو مرتبہ زور زور سے یَا عُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ! کہہ کر آپ کو پکارا،پھر یکایک اس کی روح پرواز کر گئی ۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے ہرگز ہرگز اس کو ہلاک کرنے کے ارادہ سے دریا میں اترنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ جب اہل مدینہ نے سپہ سالارکی زبانی یہ قصہ سناتو ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن جو دو مرتبہ یَالَبَّیْکَاہُ! یَالَبَّیْکَاہُ! فرمایا تھا درحقیقت یہ اسی مظلوم مجاہد کی فریاد وپکارکا جواب تھا ۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالارکا بیان سن کر غیظ وغضب میں بھر گئے اورفرمایاکہ سر دموسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں میں اس مجاہد کودریا کی گہرائی میں اتارنا یہ قتل خطا کے حکم میں ہے ،لہٰذا تم اپنے مال میں سے اس کے وارثوں کو اس کا خون بہا ادا کرواورخبردار! خبردار!آئندہ کسی سپاہی سے ہرگز ہرگز کبھی کوئی ایسا کام نہ لینا جس میں اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوکیونکہ میرے نزدیک ایک مسلمان کا ہلاک ہوجانا بڑی سے بڑی ہلاکتوں سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ہلاکت ہے۔( ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء للشاہ ولی اللہ)۔
حصن حصین جو کہ امام جزری رحمہ اللہ کی مرتب کردہ ہے جس میں انہوں نے مسنوں دعائیں اور ازکار جمع کیے ہیں. ان کے فرمان کے مطابق اس کتاب میں سب کچھ صحیح یعنی مستند ہے. حصن حصین تمام مکاتب فکر کے نزدیک معتبرترین مسنون وظائف کی کتاب ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے امام جزری سے اس کی اجازت لی تھی۔ اسی حصن حصین میں امام جزری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں. "جب مدد لینا چاہے تو کہے اے اللہ کے بندو میری مدد کرو, اے اللہ کے بندو میری مدد کرو, اے اللہ کے بندو میری مدد کرو ". (حصن حصین ص 22).
حصن حصین کی شرح میں ملا علی قاری اس روایت کے تحت فرماتے ہیں کہ "اللہ کے بندوں سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا مسلمان, یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال" مزید فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی بڑی حاجت ہے. اگر جنگل میں جانور بھاگ جائے تو آواز دو کہ اے اللہ کے بندو اسے روکو".(الحرزالثمین شرح حصن حصین. صفحہ 202 مطبوعہ مکۃ المکرمہ سعودیہ)
یہ کتاب عموما حاجیوں کو تحفہ میں دی جانے والی کتابوں میں بھی شامل ہوتی ہے.
اولیاءاللہ کی دور و نزدیک سے تصرف کرنے کی قوت
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں (اللہ تعالی) اس (بندے) کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں. اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں.
(البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : التواضع، 5 / 2384، الرقم : 6137، وابن حبان في الصحيح، 2 / 58، الرقم : 347، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 219، باب (60)، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 269، الرقم : 696
امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ سورہ کہف کی آیت نمبر 9 کے تحت فرماتے ہیں کہ
"جب بندہ نیکیوں کی پابندی کرتا ہے تو اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ کہ میں اس بندے کی سمع و بصر ہو جاتا ہوں پس جب نورِ جلالت اس کا سمع ہو جاتا ہے تو وہ دور و نزدیک سے سنتا ہے اور جب یہ نور اس کی بصر ہو جاتا ہے تو وہ دور و نزدیک سے دیکھتا ہے اور جب یہ نور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے تو وہ بندہ مشکل و آسان، دور و نزدیک امور میں بھی تصرف کرنے پر قادر ہوتا ہے۔" تفسیر کبیر.
انور شاہ کشمیری دیوبندی نے بھی اپنی شرح بخاری میں اس حدیث کی یہی شرح کی ہے۔ تاوقت کسی نے امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ اور کشمیری صاحب پر شرک کا الزام نہیں لگایا.
اس بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کی ہے.
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مؤمن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا کار ساز
جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاءاللہ رحمہم اللہ کی کرامات میں انکا اپنا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا اور انہیں کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ "سورہ ص" کی ان آیات مبارکہ کو بغور پڑھ کر اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لیں۔
فَسَخَّرْنَا لَـهُ الرِّيْحَ تَجْرِىْ بِاَمْرِهٖ رُخَـآءً حَيْثُ اَصَابَ (36)
ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا کہ وہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا
وَالشَّيَاطِيْنَ كُلَّ بَنَّـآءٍ وَّغَوَّاصٍ (37
اور شیطانوں کو جو سب معمار اور غوطہ زن تھے۔
وَاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِى الْاَصْفَادِ(38)
اور دوسروں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
هٰذَا عَطَـآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (39)
یہ ہماری بخشش ہے پس احسان کر یا اپنے پاس رکھ کوئی حساب نہیں۔
بعض اوقات جب انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاء کرام رحمہم اللہ کے عطائی تصرفات کا قرآن و حدیث سے واضح ثبوت پیش کر دیا جائے تو منکرین حضرات کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو اللہ کے دینے سے ہیں۔ تو جناب آپ کو کس نے کہا کہ مسلمان ان تصرفات کو انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاءاللہ رحمہم اللہ کے لیے ذاتی مانتے ہیں بلکہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ یہ سب اللہ کی عطا، اذن اور ارادہ سے ہے اور ہر آن اللہ کے قبضہ و قدرت میں ہے۔ تو پھر مسلمانوں پر ان تصرفات کے ذاتی ماننے کا الزام کیوں دھرا جاتا ہے؟ بقول شاعر
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
کیا دور سے دیکھ لینے یا سن لینے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے؟
احادیث مبارکہ کے مطابق جنت ساتویں آسمان پر ہے لیکن جنتی حور وہاں سے اپنے مستقبل میں ہونے والے دنیوی شوہر کے احوال کا مشاہدہ کرتی ہے جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِ عین کہتی ہے خدا تجھے قتل کرے اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا". (ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب فی المراۃ توذی زوجھا۔ الحدیث: 2014)
اسی طرح جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتوں زمینوں کے نیچے ہے لیکن قرآن کریم کے مطابق جنتی اور جہنمی ایک دوسرے کے ساتھ مقاملہ بھی کریں گے اور احوال کا مشاہدہ بھی۔
اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لھذا یہ بھی وہابیہ کا من گھڑت عقیدہ ہے.
غیر اللہ کے لئے کون سی پکار شرک ہے
عقیدہ توحید کیوں کہ اسلام کی بنیاد ہے اور اسی پر باقی تمام عقائد و امور کی بنیاد کھڑی ہے لھذا اللہ کریم نے ہر گز توحید و شرک کو ناقابل فہم اور موشگافیوں سے پرُ کر کے بیان نہیں کیا کہ عام آدمی سمجھ ہی نہ سکے۔ قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے اللہ کے ساتھ کسی کو بطور الہ یعنی معبود نہ پکارو۔ وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۟ کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ۔ سورہ القصص 28آیت 88)
اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارنا بجز اللہ تعالٰی کے کوئی اور معبود نہیں ، ہرچیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے، اسی کے لئے فرمانروائی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
یاد رہے کہ وہابیہ کا مسلمانوں پر شرک کا اطلاق کرنے کے لیے پکار کو دور و نزدیک، زندہ و مردہ اور ماتحت الاسباب و مافوق الاسباب سے مقید کرنا ان کا من گھڑت اور بدعتی عقیدہ ہے جسکا قرآن و حدیث میں کہیں ذکر نہیں۔ جس عقیدہ سے دور والے اور فوت شدہ کو پکارنا شرک ہے اسی عقیدہ سے سامنے والے اور زندہ کو پکارنا بھی شرک ہے۔ اگر اسکو اللہ کا بندہ تصور نہ کیا جائے اور اسکی مدد کو اللہ کے حکم سے اور اللہ کی مدد کا مظہر نہ سمجھا جائے۔ کیونکہ ہر مدد خواہ ماں باپ، بہن بھائی، دوست و حاکم کریں یا انبیاء علیہم السلام و اولیاءاللہ رحمہم اللہ وہ اللہ کے حکم و ارادہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یعنی حقیقی طور پر مددگار صرف اللہ ہے جس میں اسکا کوئی شریک نہیں نہ زندہ نہ مردہ، نہ دور والا نہ پاس والا نہ ماتحت الاسباب نہ ما فوق الاسباب۔ مخلوق کی مدد باذن اللہ اور مجازی ہے جب اللہ کی مدد حقیقی و ذاتی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اہلسنت انبیاء علیہم السلام اور اولیاءاللہ رحمہم اللہ سے استمداد کے فقط جواز یعنی جائز ہونے کے قائل ہیں نہ کہ اسے کوئی فرض و واجب یا اسلام کے بنیادی عقائد میں شمار کرتے ہیں لیکن وہابیت کا یہ بنیادی اور اہم ترین عقیدہ ہے مسلمانوں پر شرک کا الزام لگانا ہے مگر بغیر قرآن وحدیث سے دلیل پیش کیے فقط خوارج کے طریقہ پر۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (خوارج کو) بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔ (1-بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)
،(2. ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)، (3. ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے.
"حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا" راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا،اے اﷲ کے نبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا؟ جس نے الزام لگایا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔ (الحديث رقم 25 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220.)
اللہ پاک دورِ فتن میں ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائے. آمین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔