Pages

Tuesday, 26 March 2019

ولادتِ_علی #فرمانِ_علی . آج کی رات اور کل کا دن تیرہ رجب یوم ودلاتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مبارک ہو

#ولادتِ_علی
#فرمانِ_علی
.
آج کی رات اور کل کا دن تیرہ رجب یوم ودلاتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مبارک ہو
.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لاتکرہ امارۃ معاویه
ترجمہ:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ناپسند.و.نفرت مت کرنا
(بدایہ نہایہ8/131, استادِ بخاری فی "المصنف" روایت نمبر37854
شیعہ کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن ابی حدید3/36)
.
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے
تو
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو.... دعا کرو کہ ربِ کریم ان کے خون کو ہم سے بچائے اور ہمارے خون کو ان سے بچائے، دعا کرو کہ.اللہ ہمارے اور ان کے درمیاں صلح فرما دے اور دعا کرو کہ اللہ انہیں گمراہی(اجتہادی بغاوت و خطاء)  سے ہدایت عطاء فرمائے(ایسا کردار ایسی دعا کرو) تاکہ جہالت ختم ہو اور حق کی پہچان ہو...
(نہج البلاغہ ص238ملخصا)

.
شیعوں کے وحی وغیرہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد نظریات نکال کر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی کی ولادت اندازاً تیرہ رجب کعبہ میں ہوئی اور یہ خصوصیت صرف سیدنا علی کی نہیں بلکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوے..صحیح مسلم شریف میں ہے کہ:
سیدنا حکیم بن حزام عین کعبہ کے اندر پیدا ہوے.
(صحیح مسلم تحت الحدیث3850)
(تفصیل دیکھیے تحفہ اثنا عشریہ ص166)
.
سیدنا علی کے مولود ِ کعبہ ہونے کو بیان کیا جائے تو سیدنا صحابی حکیم بن حزام کے مولودِ کعبہ ہونے کو بھی بیان کیا جائے اور یسے الفاظ.و.وضاحت بھی ضرور بیان کی جاے کہ جس سے غلط بے بنیاد نظریات کی تردید ہو....خیال رہے کہ یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ کئ علماء و محققین کی تحقیق ہے کہ سیدنا علی کا کعبہ کے اندر پیدا ہونا ثابت نہیں
.
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کرتے تھے کہ:
لَلَّهُ أَنْزَلَ اسْمَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ السَّمَاءِ الصِّدِّيقُ
ترجمہ:
بے شک اللہ کی قسم.... اللہ نے حضرت ابو بکر کا نام ''الصدیق'' آسمان سے نازل فرمایا ہے
  (طبرانی کبیر روایت نمبر14
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)
.
حضرت علی کے مطابق بھی پہلا نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے... اہلسنت کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کا تھا کہ پہلا نمبر ابو بکر صدیق کا...
جو لوگ حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ "علی دا پہلا نمبر "وہ ٹھیک نہیں، ایسوں کو سیدنا علی نے جھوٹا اور مجرم قرار دیا ہے
.
حضرت سیدنا علی فرماتے ہیں:
بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري
ترجمہ:
حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری کی سزا ہوتی ہے(یعنی 80کوڑے مارونگا)
(فضائل الصحابہ روایت نمبر387)رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین...
.
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کی صدیقیت و سچائی اور افضلیت کی گواہی سیدنا علی نے دی،اور اپنے بیٹے کا نام سیدنا صدیق اکبر اور عمر کے نام پر نام رکھا اور محبت صحابہ کا عملی درس دیا...
سیدنا علی نے اپنے بیٹوں کے نام صدیق و عمر و عثمان رکھے..
(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:بحار الأنوار 42/120)
.
سیدنا امام موسی کاظم نے اپنی اکلوتی بیٹی کا نام عائشہ رکھا..
(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:انوار نعمانیہ 1/380)

.
سیدنا عبداللہ بن جعفر نے اپنے بیٹے کا نام معاویہ رکھا..
(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:عمدة الطالب صفحہ 56)

.
سوچیے سیدنا علی اور دیگر اہل بیت یہ نام دن رات مین کتنی دفعہ لیتے ہونگے..؟؟ کتنی دفعہ جلے ہوئے کے دل جلاتے ہونگے..؟؟ کتنی دفعہ حق اپنانے،صحابہ کرام سے محبت کرنے کا عملی درس دیتے ہونگے...؟؟
اگر واقعی اہل تشیع سیدنا علی سے محبت کرتے ہوتے تو ہر وقت محبت سے صدیق و عمر ، صدیق و عمر کہتے رہتے...اپنے بیٹوں کے صدیق و عمر نام رکھتے، بیٹیوں کے نام عائشہ و فاطمہ رکھتے ہوتے...کیونکہ یہ عمل سیدنا علی و دیگر اہل بیت سے ثابت ہے، دراصل اصلی محبان علی اہلسنت ہیں جو صحابہ کرام اہلبیت عظام اور اولیاء کرام سب کا ادب و احترام کرتے ہیں، سب کے ناموں پر نام رکھتے ہیں.....!!

جو محبت علی کا دعوی کرے مگر  سینے میں سیدنا ابوبکر و عمر  اور سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کا بغض رکھے  وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا...وہ ہلاکت میں ہے رسوائی میں ہے...وہ درحقیقت سچی محبت سے بھی خالی ہے، حد سے بڑھی ہوئی محبت محبت نہیں گمراہی ہے تباہی ہے.. محبوب کے لیے باعث رسوائی ہے.. سیدنا علی کی نافرمانی و غداری ہے.......!!   اللہ کریم اہل تشیع کو سمجھ عطا فرمائے اور گستاخانہ شیعیت سے بچائے..
.
نوٹ:
کئ احباب اعتراض کرتے ہیں کہ آپ علامہ نہ لکھا کریں...اگرمیں خود علامہ نہ لکھتا تو اکثر لوگوں کو پتہ نہ چلتا کہ مین عالم ہوں......عام مولوی کی تحریر سجھ کر ویلیو نہ دی جاتی اور نئے احباب و مسائل پوچھنے والے رابطہ نہ کرتے، مجھ نکمے سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جاتا.....وہ عالم ہی کیا جو اپنی اصلاح و تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرں کو نفع و رہنمائی نہ کرے....؟؟
.
ڈاکٹر اگر ایم.بی بی ایس وغیرہ لکھے تو اعزاز کی بات ہے اور اگر عالم خود کو عالم لکھے مفتی لکھے تو عیب،اعتراض.؟؟
ہاں اگر غیر مستحق ہو یا بطورِ تکبر عالم ہونا جتاے تو جرم.و.عیب ہے ورنہ ہرگز نہیں
.
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:
لا بأس للعالم أن يحدث عن نفسه بأنه عالم ليظهر علمه فيستفيد منه الناس وليكن ذلك تحديثا بنعم الله تعالى
(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377)
.
صاحبِ بہار شریعت خلیفہ اعلی حضرت اسکا تشریحی ترجمہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:
عالم اگر اپنا عالم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ تفاخر کے طور پر یہ اظہار نہ ہو
(کہ تفاخر حرام ہے)
بلکہ محض تحدیثِ نعمت الٰہی کے لیے یہ اظہار ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو استفادہ کریں گے کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا
(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377)
(بہار شریعت جلد3 حصہ16 صفحہ627)
اللہ تکبر تفخر  دھوکے بازی بدگمانی حق تلفی حسد تحقیر اور غیرمستحق ہوکر القاب لگانے سے محفوظ رکھے..آمین
.
دیکھا جاے تو اکثر نئے عالم اور نوجوان عالم اور غیرمعروف عالم کو عالم،علامہ لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لوگ اسکو نہیں جانتے ہوتے...اور اس سے استفادہ نہیں کرتے، یا انکی تحریر کو عام سی تحریر سمجھتے ہیں جبکہ بڑے بڑے بزرگ علماء کا علامہ ہونا معروف.و.مشھور ہوتا ہے اس لیے وہ اکثر علامہ نہیں لکھتے اور کبھی یا کہیں لکھتے بھی ہیں...اس لیے نوجوان جو واقعی عالم ہو اور علامہ لکھے تو اسے یہ تانہ مت ماریے کہ فلاں بڑا عالم علامہ نہیں لکھتا اور تم بڑے علامہ بنے پھرتے ہو..کیونکہ بزرگ مشھور عالم کا علامہ ہونا تو مشھور ہوچکا اسے حاجت نہیں... زیادہ حاجت و فائدہ تو نوجوان غیرمشھور عالم کو علامہ لکھنے میں ہے بشرطیکہ مستحق ہو اور یہ مقصد ہو کہ علامہ لکھوں گا تو تحریر میں وزن پیدا ہوگا کہ یہ کسی عام شخص کی تحریر نہیں...اور یہ بھی فائدہ ہوگا کہ مزید معلومات و مسائل کے لیے رابطہ کر سکے گا....اس لیے عالم کو علامہ ضرور لکھنا چاہیے بلکہ ہوسکے تو اپنے نمبر بھی لکھے کہ رابطہ آسان ہو....یہ سب ہمیں ہمارے استادوں نے سمجھایا اور علامہ لکھنے کی اجازت دی بلکہ حکم دیا.....ہاں القابات کی بھرمار مناسب نہیں
اللہ تکبر تفخر بدگمانی حق تلفی حسد تحقیر اور غیرمستحق ہوکر القاب لگانے سے محفوظ رکھے..
.
تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر سنی القادری رضوی لبیکی صدیقی عینی
(صدیقی بامناسبت استاذی سابق رکنِ شوری دعوتِ اسلامی مفتی محمد صدیق المدنی القادری کہ جن کے مدرسہ حنفیہ قادریہ کوئٹہ میں عالم کورس مکمل کیا اور انہی کے مدرسہ میں کئ سال پڑھایا)
(عینی بامناسبت یہ کہ میں اس وقت جامعۃ العین سکھر مہتمم و بانی مفتی چمن زمان القادری صاحب کے مدرسہ جامعۃ العین میں پڑھا رہا ہوں)
03468392475
03342451198

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔