تبرکات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ لوگ ان تمام چیزوں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس سے امت کا رشتہ ان کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے جڑتا ہے ۔ مقصد انہیں کو معلوم ہے۔چنانچہ کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تبر کات سے بر کت حاصل کرنے کو ناجائز کہتے ہیں اور کچھ لوگ اعتراضات سے دامن بچانے کے لئے سید ھاکہتے ہیں کہ جائز تو ہے مگر آج دنیا میں کوئی تبر ک ہے ہی نہیں سب فنا ہو گئے۔ مقصد وہی ہے کہ لوگ بر کت حاصل نہ کریں ۔بہر حال صحیح احادیث طیبہ کی روشنی میں تبر کات کی شر عی حیثیت کیا ہے ؟ پر ھئے اور خود فیصلہ کیجئے ۔
جملہ علمائے اہلسنت و جماعت کے نز دیک رسول اکرم نور مجسم سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تبرکات سے برکت حاصل کر نا جائز اور باعث سعادت ہے ۔ کیونکہ اس سلسلے میں صاف اور صریح احادیث طیبہ مو جود ہیں ۔ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا ۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا استعمال کیا ہوا پا نی لیتے دیکھا ۔میں نے دیکھا کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کی کو شش کر رہے تھے،جسے جوکچھ مِل گیا اس نے اپنے اوپر مَل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی ۔ (صحیح بخاری،کتاب الصلاۃ،باب الصلوٰۃ فی الثوب الاحمر، حدیث:۳۷۶)
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ایک ’طیالسی کسروانی‘جبہ نکا لا جس کے گریبان اور آستینوں پر دیباج سے نقش ونگار بنے ہوئے تھے ،اور (حضرت عبداللہ سے)کہا :یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا جبہ ہے ۔جو حضرت عائشہ کے پاس تھا ۔جب ان کا وصال ہو گیا تو اسے میں نے حاصل کر لیا ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اسے پہنا کرتے تھے اور ہم اسے دھو کر پانی بیماروں کو پلایا کرتے تھے تا کہ وہ شفا یاب ہو جائیں ۔ (صحیح مسلم ،کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریم استعمال اِناء الذھب والفضۃعلی الرجال والنساء الخ ،حدیث : ۲۰۶۹)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت ام سُلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہیں آرام فر مایا ۔ جب وہ باہر سے آئیں تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو پسینہ مبارک آیا ہواہے جو چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔حضرت ام سلیم پسینہ مبارک پونچھ پونھ کر ایک بو تل میں جمع کر نے لگیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں :حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اچانک اٹھ بیٹھے اور فر مایا:ائے ام سلیم !کیا کر رہی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم !ہم اس سے اپنے بچوں کے لئے بر کت حاصل کر یں گے۔آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:تو نے ٹھیک کیا۔(صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ،باب طیب عرق النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم والتبرک بہ ،حدیث : ۲۳۳۱)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کرلی اور قربانی بھی کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے سر کے دائیں حصے کو حجام کے آگے کیا ،اس نے اس حصے کے بال کو صاف کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں وہ بال عطا کر دئیے پھر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے سر مبارک کا با یا ں حصہ حجام کے آگے کیا اور اسے حکم دیا ، اسے صاف کر دو ،اس نے صاف کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے وہ بال حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دئے اور انہیں حکم دیا کہ انہیں لوگوں میںتقسیم کر دو ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الحج ،باب بیان انَّ السنۃ یوم النحر ان یرمی ثم ینحر ثم یحلق الخ، حدیث :۱۳۰۵)
ہر دور کے مسلمان خواہ وہ علماء ہوں یا عوام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تبرکات کو ساری دنیا کی نعمتوں سے زیادہ محبو ب رکھتے ہیں ۔ چنانچہ ابن سیر ین کہتے ہیں کہ میں نے عبیدہ بن عمر و سلمانی سے کہا : ہمارے پاس حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کچھ مو ئے مبارک ہیں ۔ ہم نے ان کو حضرت انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں کے پاس سے حاصل کیا ہے۔ تو عبیدہ نے کہا اگر ان بالوں میں سے ایک بال بھی میر ے پاس ہوتا تو وہ بال مجھے ساری کائنات سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوتا ۔ (صحیح بخاری ،کتاب الوضوئ، باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان، حدیث :۱۶۹)
اس کے علاوہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ دوران جنگ جب آپ کی ٹو پی گر پڑی۔ تو آپ نے اس کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جان پر کھیل کر اس کو اٹھا یا ۔اس پر کچھ لو گوں نے اعتراض کیا تو آپ نے ارشاد فر مایا کہ میں نے اس ٹوپی کےلئے ایسا نہیں کیا بلکہ اس ٹو پی میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے موئے مبارک تھے ۔اور مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں اس کی بر کت سے محروم نہ ہوجائوں ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،۲:۶۱۹)
اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام اور ان کے بعد کے مسلمان کس طرح سر کا ر صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تبر کات کو اہمیت دیتے تھے ۔ اور کس درجہ ادب واحترام کے ساتھ سنبھا ل کر رکھتے تھے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ سارے تبرکات فنا ہو گئے آج دنیا میں ان میں سے کو ئی موجود نہیں ۔ (التوسل ،مصنفہ شیخ ناصر البانی وہابی ، ص : ۱۴۷)
جواب : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے خود اپنے تبر کات کو اپنے صحابہ کے درمیان تقسیم فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تبرکات کو نہایت درجہ ادب و احترام کے ساتھ سنبھا ل کر رکھا۔پھر سلسلہ بہ سلسلہ نسلا بعد نسل یہ سارے تبرکات ہم تک پہونچے۔ جو آج دنیا کے مختلف گوشوں میں موجود ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف منسوب اشیاء سے ہر دور کے مسلمانوں کے جو جذبات وابستہ رہے ہیں اورجس طرح ان پاکبازلوگوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ہر قول و فعل بلکہ سفر و حضر کے تمام احوال و کوائف کو محفوظ رکھتے ہو ئے اپنے بعد آنے والی نسلوں تک پہونچانے کا عظیم الشان فر یضہ انجام دیا ۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایک مسلمان آسانی کے ساتھ فیصلہ کر سکتا ہے کہ تبر کات کے فنا ہو نے کی بات بکواس ہے جس کی طرف کو ئی تو جہ نہیں دینی چا ہئے ۔ اور آخر جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ سب تبر کات فنا ہو گئے ان کے پاس کونسی دلیل ہے جس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے ؟ ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔