جانور بھی مانتے ہیں وسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔اس حدیث کو امام ابوداود، احمد، ابویعلی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں عبد الحکیم بن سفیان نامی راوی ہیں امام ابن ابی حاتم نے ان کا بغیر کسی جرح کے ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی تمام رجال ثقہ ہیں۔
(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : ما يؤمر به من القيام علی الدواب والبهائم، 3 / 23، الرقم : 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 205، الرقم : 1754، وأبو يعلی في المسند، 12 / 157، الرقم : 6787، والحاکم في المستدرک، 2 / 109، الرقم : 2485، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 13، الرقم : 15592، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 54، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 314، الرقم : 437، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 159، الرقم : 186، وأبو عوانة في المسند، 1 / 197، 168، الرقم : 497، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 158. 160، الرقم : 1330. 1336، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 374، 27 / 374، والوادياشي في تحفة المحتاج، 2 / 238، الرقم : 1536، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 243، الرقم : 243، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 165، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 19، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 8.)
حضرت شمر بن عطیہ رضی اللہ عنہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی تو اچانک ایک سو کے لگ بھگ بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر اُن بھیڑیوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔
(أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 25، الرقم : 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 376.)
حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راہِ تعظیم) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا : اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا : یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں، حضور! بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : نہیں، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے، اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں محوِ استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔ پھر ہم وہاں سے آگے چلے اور ہمارا گزر پانی کے پاس سے ہوا۔ وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لڑکے کی ناک کا نتھنا پکڑ کر فرمایا : نکل جاؤ میں محمد، اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : پھر ہم آگے بڑھے۔ جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم دوبارہ اسی پانی کے پاس سے گزرے۔ پس وہی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھنا ہوا گوشت اور دودھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت واپس کر دیا اور اپنے صحابہ سے فرمایا تو انہوں نے دودھ میں سے کچھ پی لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اس کے بعد ہم نے اس میں کبھی اس بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابونعیم اور ابن حمید نے روایت کیا ہے ۔ امام منذری نے فرمایا کہ اس کی سند جید ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام احمد نے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور طبرانی نے بھی اسی کی مثل روایت کیا ہے اور امام احمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 158، الرقم : 184، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 154، الرقم : 405، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 144، الرقم : 3430، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 368، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 5.)
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول (ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے، تو ہم نے وہ دوبچے اٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے اس چَنڈُول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ تو ہم نے عرض کیا : ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے بچے اسے لوٹا دو ۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس کی حدیث کی سند صحیح ہے۔
(أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 267، الرقم : 7599، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 321، والهناد في الزهد، 2 / 620، الرقم : 1337، والجزري في النهاية، 4 / 121.)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کر کے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آ جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا : یارسول اﷲ، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آ جائے۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کر دیا اور وہ چلی گئی ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 358، الرقم : 5547، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 376، الرقم : 274، وابن کثير في شمائل الرسول : 347)
حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں : ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے۔ کسی ندا دینے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’یارسول اﷲ‘ کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا : یارسول اﷲ، میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا : تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا : اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کر دیجئے کہ میں جا کر انہیں دودھ پلا سکو پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا : اگر میں ایسا نہ کروں تو اﷲتعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا۔ وہ چلی گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس ہرنی کو آزاد کر دو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کر دیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جا رہی تھی : میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲتعالیٰ کے رسول ہیں ۔
(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 331، الرقم : 763، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 321، الرقم : 1176، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 295)
حضرت حمزہ بن ابی عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا ۔ حافظ ابن عدی کہتے ہیں : ہمیں ابو بکر بن ابی داود نے بتایا کہ اس چرواہے کی اولاد کو ’’مکلم الذئب (بھیڑیے سے کلام کرنے والا) کی اولاد کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا۔ اور ان کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا اور بھیڑئیے سے کلام کرنے والے شخص کا نام اہْبَان تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ محمد بن اشعث خزاعی ان کی اولاد میں سے تھے ۔
( أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 / 40، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 146، وفي شمائل الرسول : 343، 344، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 62)
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اُونٹ! پرسکون ہو جا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آ جاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبی کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے۔ ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہو کر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہو کر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہو گئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کئے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھا لینے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا : خدا کی قسم، یا رسول اللہ! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا : اے اونٹ! جا، تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جا کر کوئی آواز نکالی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : آمین۔ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آبدیدہ ہو گئے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے پہلی دفعہ کہا : اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ میں نے کہا : آمین۔ پھر اس نے کہا : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا : آمین۔ پھر اس نے دعا کی : اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آ گیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہو گی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے ۔ (أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 144، 145، الرقم : 3431)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔