امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا جھوٹا قصہ
(سلسلہ "کربلا کے کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
واقعۂ کربلا میں جو قصے کہانیاں داخل ہو گئیں یا جن من گھڑت واقعات کو واقعۂ کربلا کے ساتھ جوڑا گیا ان میں سے امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ اس واقعے کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اردو زبان میں واقعۂ کربلا پر لکھی جانے والی تقریباً ہر کتاب میں یہ موجود ہے، یہاں تک کہ بعض معتبر مصنفین نے بھی اپنی کتابوں میں اسے نقل کیا ہے۔
جن کتابوں میں یہ واقعہ لکھا گیا ہے، ان کی تعداد سو کے قریب ہے۔ یہ تمام کتب واقعۂ کربلا کے پیش آنے کے سیکڑوں بلکہ ہزار سال بعد لکھی گئی ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ لکھنے والوں نے کہیں سے اخذ کیا ہوگا اور وہ ماخذ ہی ہمیں حقیقت بتا سکتا ہے لہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا اصل ماخذ کیا ہے؟
وہ تمام کتب جن میں یہ واقعہ درج ہے، انھیں ہم تین حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ پہلی تو وہ کتابیں ہیں جن میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں ہے، بس واقعہ موجود ہے،
دوسری وہ ہیں جن میں ماضی قریب میں لکھی جانے والی کسی کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے،
اور تیسری وہ ہیں جن میں ایک ایسے ماخذ کا ذکر کیا گیا ہے جو اس واقعے کا اصل مرکز ہے۔
پہلی دو قسموں کو الگ کرتے ہیں کیوں کہ وہ اصل ماخذ تک معاون نہیں بن سکتیں۔ اب جو تیسری قسم کی کتابیں ہیں ان میں جس ماخذ کا ذکر ہے وہ "روضۃ الشھداء" نامی کتاب ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں ہے اور مصنف کا نام ملا حسین بن علی کاشفی ہے جس کا انتقال 910ھ میں ہوا۔ یہی وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے اس من گھڑت قصے کو بیان کیا ہے ورنہ کتب تاریخ میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ ایک شیعہ مرزا تقی لسان نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سب سے پہلے امام مسلم کے بچوں کی شہادت کا واقعہ "روضۃ الشھداء" میں بیان کیا گیا ہے اور پہلے مؤرخین میں صرف عاصم کوفی نے بچوں کا تذکرہ کیا ہے وہ بھی نام لیے بغیر اور شہادت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ مرزا تقی نے ایک کتاب کے حوالے سے یہ تک لکھا ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد جب اہل بیت کو قیدی بنا کر لایا گیا تو امام مسلم کے چھوٹے صاحبزادے ان کے ساتھ قیدی تھے۔ اس واقعے کے سلسلے میں "روضۃ الشھداء" پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب اور صاحب کتاب پر ہم تفصیل سے کلام کریں گے لیکن اس سے پہلے تاریخ کی روشنی میں اس واقعے کی حقیقت کو ملاحظہ فرمائیں جسے محقق اہل سنت، حضرت علامہ محمد علی نقشبندی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ امام مسلم بن عقیل (جب کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو پہلے) مدینے میں رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں گئے اور نماز ادا کرنے کے بعد دو راستہ بتانے والوں کو اجرت پر لے کر ان کے ساتھ (جانب کوفہ) چل پڑے۔ راستے میں سب کو بہت زیادہ پیاس لگی جس کی وجہ سے وہ دونوں مر گئے اور مرتے وقت امام مسلم کو پانی کا راستہ بتا گئے۔
(الکامل فی التاریخ، ج4، ص21، مطبوعہ بیروت)
یہ ایسی کتاب کا حوالہ ہے جسے شیعہ و سنی دونوں معتبر جانتے ہیں۔ اس میں امام مسلم کے بچوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ امام مسلم کا مدینے جانا، راستے میں پیاس لگنا، دونوں راستہ بتانے والوں کی موت ہو جانا، اس پورے واقعے میں امام مسلم کا بچوں کو ساتھ لے جانا مذکور نہیں ہے۔ اگر بچے ساتھ تھے تو کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا؟ خصوصاً پیاس کے وقت ان کی حالت کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔
علامہ ابن خلدون، علامہ ابن کثیر اور طبری نے بھی امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا ذکر نہیں کیا حالانکہ مدینہ جانے، راستہ بتانے والوں کو ساتھ لینے اور پیاس کی شدت سے انتقال کر جانے کا تذکرہ کیا ہے۔
(تاریخ ابن کثیر، ج8، ص198۔ تاریخ ابن خلدون، ج2، ص512۔ تاریخ طبری، ج4، ص147)
کتب تاریخ میں امام مسلم کا اپنے بچوں کو ساتھ لے جانا ہی ثابت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شیعوں کی معتبر کتب میں بھی اس کا ثبوت نہیں ہے۔ شیعوں کی سب سے بڑی اور ضخیم کتاب "بحار الانوار" جو 110 جلدوں پر مشتمل ہے، اس میں بھی امام مسلم بن عقیل اور راستہ بتانے والوں کا تو ذکر ہے لیکن بچوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
(بحار الانوار، ج44، ص335، مطبوعہ تہران)
تاریخ کی دیگر کتابوں میں بھی امام مسلم کے بچوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ جو ہمارے درمیان مشہور ہے محض ایک افسانہ ہے جسے رونے رلانے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ جو دلائل پیش کیے گئے وہ اس واقعے کی تردید کے لیے کافی ہیں اور ان کے علاوہ امام مسلم کی وصیت بھی قابل غور ہے جس کا ذکر سنی و شیعہ دونوں طرف کی کتب میں موجود ہے، چناں چہ امام مسلم نے شہید ہونے سے پہلے چند وصیتیں فرمائیں اور وہ یہ تین ہیں:
(1) اس شہر (کوفہ) میں جو میرا قرض ہے اسے ادا کر دیا جائے۔
(2) شہادت کے بعد میرے جسم کو زمین میں دفن کر دیا جائے۔
(3) کسی کو بھیج کر امام حسین کو واپس جانے کا پیغام دے دیا جائے۔
(البدایۃ والنھایۃ، ج8، ص56، مطبوعہ بیروت۔
کتاب الفتوخ تصنیف احمد بن عاصم الکوفی، ص99، مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
الکامل فی التاریخ، ج4، ص34، مطبوعہ بیروت۔
مقتل حسین مصنفہ ابو المؤید خوارزمی، ص212، مطبوعہ ایران۔
تاریخ طبری، ج6، ص212، مطبوعہ بیروت۔
ناسخ التواریخ، ج2، ص98، مطبوعہ تہران جدید)
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب امام مسلم اپنے قرض اور اپنے جسم کے لیے وصیت کر رہے ہیں تو پھر اپنے بچوں کو کیسے بھول گئے؟
امام مسلم بن عقیل کی وصیت میں یہ بات ضرور موجود ہونی چاہیے تھی کہ میرے بچوں کو فلاں جگہ پہنچا دیا جائے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بے شک امام مسلم اپنے بچوں سے محبت کرتے تھے تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ انھیں بھول جائیں؟ مذکورہ تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مسلم کا اپنے بچوں کو کوفہ لے جانا، ان بچوں کا یہاں سے وہاں بھٹکنا اور شہید کر دیا جانا سب قصے کہانیاں بے اصل و من گھڑت ہیں۔
اس قصے کو سب سے پہلے ملا حسین واعظ کاشفی نے روضۃ الشھداء میں لکھا ہے اور آپ کو شاید یہ بات کڑوی لگے لیکن سچ یہی ہے کہ ملا حسین کاشفی سُنی نہیں بلکہ اہل تشیع تھا۔ یہ اور اس کی کتاب اہل سنت کے نزدیک کوئی حجت نہیں۔
اس مکمل بحث کے بعد بھی اگر کوئی امام مسلم کے بچوں کے اس قصے کو روضۃ الشھداء میں ہونے کی وجہ سے ہضم کر لیتا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی کتاب میں موجود دیگر واقعات کو بھی ہضم کر کے دکھائے جن میں سے کچھ مزے دار واقعات ہمارے ایک دوسرے قسط وار مضمون "اسے بھی ہضم کیجیے" میں موجود ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
عبد مصطفی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔