حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کی ولی عہدی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اعتراض : ایک اعتراض یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد کیوں مقرر کردیا تھا ۔
جواب : ہاں بے شک انہوں نے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تھا اس لئے نہیں کہ خلافت ، مملکت اور حکومت کو اپنے خاندان میں بند کردیں ۔ یہ بدگمانی ہم نہیں کرسکتے کیوں ؟ اس لئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کے حق میں مومن کو حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم ہے کہ : مومن کے حق میں خیر کا گمان کرو ۔ (مشکوۃ المصابیح)
معاذ اللہ یا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تم کافر کہو اور اگر مومن کہتے ہو تو قرآن کریم کہتا ہے کہ مومن کے حق میں بدگمانی مت کرو میں کہتا ہوں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومن ہیں لہٰذا ہم ان کے حق میں بدگمانی نہیں کریں گے اور جب بدگمانی نہیں کریں گے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہوں نے اپنے خیال میں وہ بہتر سمجھ کرکیا اگرچہ اس کا نتیجہ بہتر نہیں نکلا ۔
بعض حضرات یزید کی ولی عہدی کے معاملے کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی آڑ میں یزید کی ایسی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی ظلم تھا ہی نہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر یزید ایسا ہی برا تھا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی برائیاں کیوں نہ دکھائی دیں ، پس ماننا پڑے گا کہ یزید بہت اچھا ہوگا اور اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہوگا ۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یزید کی ولی عہدی کے بعد واقعہ کربلا و حرا وغیرہ رونما ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے کہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پر یزید اور اس کی حکومت کو ڈسکاؤنٹ دینا بھی جائز نہیں کہ ان معاملات کو طاقت کے یوں اندھا دھن استعمال کے بغیر بھی حل کرنا ممکن تھا ۔
لیکن ان تمام واقعات کو صرف اور صرف یزید کی ولی عہدی کا لازمی نتیجہ قرار دینا یک طرفہ سوچ کا نتیجہ ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کا طریقہ اختیار کرتے وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مثالی طرز عمل کی متابعت نہ کی ، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سیاسی انتظامی فیصلے بہت حد تک اس بات کے مرہومن منت ہوتے ہیں کہ اطاعت و قبولیت عامہ کی عصبیت کس چیز یا تصور کو حاصل ہے ۔ مثلا آج اگر پاکستان میں کوئی پارٹی یکدم ولی عہدی کا نظام متعارف کروائے (یا کوئی وزیر اعظم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح کسی کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہے) تو پاکستانی عوام اسے قبول نہ کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمر بھی کسی نہ کسی صورت میں جمہوریت کا ورژن چلانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں سربراہ مملکت کے معاملے کو یونہی کھلا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوجاؤں اور پھر مکتب شام ، عراق و حجاز سب اپنے اپنے امیر چن کر ایک دوسرے کے خلاف تلواریں لیکر نکل آئیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید بہت سی مزید صفین اور جمل کے نتیجے میں امت کا شیرازہ بکھر جاتا ۔ صفین و جمل کے بعد مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو دوبارہ ایک سیاسی جھنڈے تلے متحد رکھنے کی خواہش ہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی ولی عہدی کا یہ قدم اٹھایا جو نتیجے کے اعتبار سے درست ثابت نہ ہوا ۔ لیکن نتائج دیکھ لینے کے بعد تاریخ کو الٹ سمت میں پڑھنا شروع کرکے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نیت پر حملہ آور ہوجانا یا بیٹے کے کرتوتوں کا الزام باپ پر ڈال دینا ، یہ غلط طریقہ تجزیہ ہے ۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ، اور کوئی بوجھ اٹھانے وا لی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 7)
امام ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : امام کی حقیقت یہی ہے کہ وہ قوم کے دینی و دنیوی مصالح پیش نظر رکھتا ہے لہذا امام قوم کا خیرخواہ ، ہمدرد اور محافظ ہوتا ہے ۔ شریعت مطہرہ میں اجماع سے ولی عہد کا جواز و انعقاد ثابت ہے ۔ اس سلسلے میں امام پر بدگمانی روا نہیں اگرچہ وہ اپنے باپ یا بیٹے ہی کو ولی عہد بنا جائے ۔۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی حسن ظن رکھنا چاہیئے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی عدالت اور صحبت رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہی تقاضہ ہے اور پھر بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع اور ان کی خاموشی اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بدگمانی سے بری ہیں کیونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ شان نہ تھی کہ وہ حق سے چشم پوشی فرمائیں اور مروت سے کسی کے ساتھ نرمی برتیں اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ شان تھی کہ وہ اقتدار شاہی کے سامنے حق بات ماننے سے انکار کردیں ۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی شان بلند و ممتاز ہے اور ان کی عدالت ان کے ساتھ اس قسم کی بدگمانیوں سے مانع ہے ۔ (مقدمہ ابن خلدون اردو، جلد 2، ص 26-28، نفیس اکیڈمی)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اسے (یزید کو) اس لیے ولی عہد بنالیا ہے کہ وہ میری رائے میں اس کا اہل ہے تو اس ولایت کو اس کے لیے پورا فرما دے اور اگر میں نے اس لئے اس کو ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرما ۔ (البدایہ والنہایہ ص 80 جلد 8)
غور کرنے کی بات ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو یا وہ زبردستی ایک کام کو مسلط کرنا چاہ رہا ہو وہ جمعہ کے دن مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر قبولیت کی گھڑی میں اپنے بیٹے کے لیے ایسی دعا کرسکتا ہے ؟
اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یزید کو نااہل سمجھنے کے باوجود محض اپنا بیٹا ہونے کی وجہ سے خلافت کے لئے نامزد کیا تھا تو یہ اتنا بڑا تحکم ہے جس کےلئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے ۔ کسی شخص کی نیت پر حملہ کرنا زندگی میں بھی شریعت نہیں جائز قرار نہیں دیا ، چہ جائیکہ اس کی وفات کے چودہ سو برس بعد اس ظلم کا ارتکاب کیا جائے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید پلید کے بعض کفریہ عقائد و نظریات جن کا اظہار اس نے کیا
جب سرانور یزید پلید کے سامنے رکھا گیا تو وہ خوش ہوا اس نے اہل شام کو جمع کیا اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے سرانور الٹ پلٹ کرتا تھا اور ابن الربعری کے یہ شعر پڑھتا تھا :
لیت اشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج فی وقع الاسل
قد قتلنا القوم من ساداتکم
وعدلنا میل بدر فاعتدل
ترجمہ : اے کاش ! آج میرنے بزرگ جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے زندہ موجود ہوتے تو دیکھتے کہ بیشک ہم نے ان سے دوگنے ان کے اشراف کو قتل کرکے بدر کا بدلہ لے لیا اور معاملہ برابر کردیا ۔ (صواعق محرقہ ص 218 ،البدایہ والنہایہ 8/192۔ ابن عساکر)
فاھلوا واستھلوا فرحا
ثم قالوا یا یزید لا تشل
ترجمہ : اس وقت خوشی کے مارے ضرور بآوازبلند پکار کر کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں
علامہ ابن حجر مکی شافعی اورشعبی نے فرمایا :
وزادفیھا بیتین مشتملین علی صریح الکفر
لعبت بنو ھاشم بالملک فلا
خبر ی جاء ہ ولا وحی نزل
ترجمہ : بنی ہاشم نے ملک گیری کےلیے ایک ڈھونک رچایا تھا ورنہ کوئی خبر آسمانی آئی تھی اور نہ کوئی وحی نازل ہوتی تھی۔(تفسیر روح المعانی : علامہ آلوسی جلد 29 ص 72)
لست من خندف ان لم انتقم
من بنی احمد ما کان فعل
ترجمہ : میں اولاد خندف سے نہیں ہوں اگر اولاد احمد سے ان کے کئے ہوئے کا بدلہ نہ لوں جو کچھ انہوں نے کیا تھا ۔ (تفسیر روح المعانی : علامہ آلوسی جلد 29 ص 72، صواعق محرقہ ص218)
یہ ہیں یزید پلید کےکفری عقائد و نظریات جو دین اسلام اور اس کے حقائق کا انکار کرنے کے ساتھ اپنے نجس و ناپاک خیال کا اظہار کرتا ہے کہ میں نے بدر والوں کا اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بدلہ لیا ہے ۔
علامہ آلوسی اپنا فیصلہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کہ یہ خبیث یزید تو رسالت مقدسہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بھی قائل تھا یعنی یہ ہے دین اسلام سے کھلم کھلا خارج ہونا یزید کا اور اس کا یہ قول کہ وہ اللہ تعالی کی طرف اور نہ ہی اس کے دین کی طرف اور نہ ہی اس کی کتاب طرف اور نہ ہی اس کے رسول کی طرف اور نہ ہی اللہ پر اور جو کچھ اس کی طرف سے آیا ہے رجوع نہیں کرے گا۔(تذکرہ خواص الامہ صفحہ 148 ،صواعق المحرقہ صفحہ 223 ،طبری صفحہ 72،چشتی)
یزید پلید علانیہ شراب کے دور چلاتا تھا اور عیش وعشرت کرتا تھا جب اس کو روکا جاتا تو کہا کرتا تھاکوئی بات نہیں،
فان حرمت یوما علی دین احمد
فخذ علی دین مسیح بن مریم
اگر دین احمد میں شراب نوشی حرام ہے تو پھر مسیح بن مریم (علیہ السلام) کے دین پر پی لو۔
ما قال ربک ویل للذی شربوا
بل قال ربک ویل للمصلین
خدا نے شراب خوروں کے بارے میں ویل اللشاربین نہیں کہا ۔ لہذا نماز گزاروں کے متعلق ویل اللمصلین موجود ہے۔ یعنی ہلاک ہوجائے شرابی نہیں کہا بلکہ ہلاک ہوجائے نمازی کہا ہے۔ (تفسیرمظہری جلد2 صفحہ 912 ، ابن اثیرکامل جلد 2 صفحہ 36،چشتی)
مطلب یہ کہ یزید نے شراب کی حرمت میں کہا کہ اللہ نے نمازیوں کے لئے ہلاکت کا حکم دیا ہے نہ کہ شرابیوں کے لیے پس شراب حلال ہے اس لئے ہم پیتے ہیں اور یہ جنت میں بھی جنتوں کو پلائی جائی گی۔ ینز کہا کہ اگر دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں شراب نوشی حرام ہے تو تم حضرت عیسی علیہ السلام کے مذہب پر رہ کر شراب نوشی کرلو ۔ العیاذ باللہ ۔ اللہ عز و جل اورسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور قرآن کا کیسا کھلا تمسخر کیا گیا ہے اور آیات خداوندی کو کس طرح اپنی شراب نوشی بنانے کی کوشش کی ۔
یزید اپنی سوتیلی ماؤں، بیٹیوں سے اور بہنوں سے نکاح کرواتا تھا اور نماز ترک کرتا تھا۔ (بحوالہ تاریخ الخلفاء صفحہ 702)
یزید عیاش اور شرابی تھا
یزید کی عیش و عشرت اور عادات واطوار کا یہ حال تھا : وکان یزید صاحب طرب وجوارح وکلاب و قردود نھمودومنا علی اشراب ۔
یزید بڑا عیش و عشرت پسند ، شکاری ، جانوروں ، کتوں، بندروں اور چیتوں کا دلدادہ تھا اور ہروقت اس کے ہاں شراب خوری کی بزمیں لگی رہتی تھیں۔ ( بحوالہ تاریخ الخلفاء )
یزید پلید کے کفریہ عقائد صاحب تفسیر المعانی لکھتے ہیں کہ : یزید نے حضرت سید نا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کہا کہ کاش میرے بدر والے بزرگ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ میں نے بنی ہاشم کے سرداروں میں سے بڑے سردار امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو قتل کرکے بدرکا بدلہ لے لیا ہے اور اس وقت وہ خوشی سے پکارتے کہ اے یزید! تیرے ہاتھ کبھی نہ تھکیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ یزید بلاکا شراب نوش اور ناچ گانے کا دلدادہ تھا ۔ یزید کی بدکرداری دیکھ کر اہل مدینہ نے ایک وفد اس کو سمجھانے کے لئے بھیجا اور اس وفد نے ناکام واپس آکر یزید کی بدکرداری اور برائیاں بیا ن کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے دین ہے ، خدا کا دشمن ہے شراب نوش ہے ، تارک الصلواۃ ہے ، زانی ہے، فاسق ہےاور محارم سے صحبت کرنے سے باز نہیں آتا ہم اس کی بیعت توڑتے ہیں ۔ (تکمیل الایمان ص 178)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔