Pages

Saturday, 22 March 2025

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کریم کے محبوب اور مقبول بندے مدد کرتے ہیں لیکن

*مولانا عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری2023

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کریم کے محبوب اور مقبول بندے مدد کرتے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ حضرات ذاتی طور پر ، خود بخود ، مستقل مشکل کُشا ہیں ، مَعاذَ اللہ۔ کوئی مسلمان ایسا عقیدہ رکھنا تو دور کی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ امداد صرف اور صرف اللہ کریم ہی کی ہے ، اللہ پاک کے محبوب بندے اس مدد کا وسیلہ ، ذریعہ اور سبب ہیں اور اللہ کے نیک بندے جو مدد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ ہی کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔

جلیلُ القدر فقیہ و محدث ، شیخ الاسلام حضرت امام تقی الدین علی سبکی شافعی  رحمۃُ اللہ علیہ  استمداد و استعانت کو بہت سی احادیثِ صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں ، کوئی مسلمان یہ بات ہرگز نہیں سوچ سکتا ، کلام کو اس معنی پر ڈھال کر مدد مانگنے سے روکنا ، دین میں دھوکا دینا اور مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔[1]

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : اَلْمُسْتَغَاثُ بِہٖ فِی الْحَقِیْقَۃِ : ہُوَ اللہ تَعَالٰی ، وَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وَاسِطَۃٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ الْمُسْتَغِیْث یعنی حقیقی مددگار تو اللہ پاک ہی ہے ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو اللہ پاک اور مدد مانگنے والے کے درمیان واسطہ و وسیلہ ہیں۔[2]

اعتراض کرنے والے کو چاہئے کہ مدد مانگنے والوں سے پوچھ کر تو دیکھے کہ  ” تم انبیا ء و اولیاء کو خدا مانتے ہو ، خدا کا ہم پلہ مانتے ہو ، خود سے قدرت رکھنے والا ، ہمیشہ ہمیشہ سے مستقل مددگار سمجھتے ہو یا انہیں اللہ کریم کے مقبول بندے ، اس کی بارگاہ میں عزت ووجاہت والے ، اُسی کے حکم سے اُس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو؟ دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتا ہے۔ “  [3]

استغاثہ ، توسل ، سفارش وغیرہ ایک ہی ہیں :

جب اللہ کے محبوب بندے مدد کا وسیلہ ، واسطہ ، ذریعہ اور سبب ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ استغاثہ ، توسل دونوں ایک ہی عمل کے مختلف نام ہیں ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت امام سبکی فرماتے ہیں : وَ اِذَا تَحَرَّرْتُ ھَذِہِ الْاَنْوَاعَ وَ الْاَحْوَالَ فِی الطَّالِبِ مِنَ النَّبِیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، وَظَہَرَ الْمَعْنیٰ ، فَلَا عَلَیْکَ فِی تَسْمِیَتِہٖ : تَوَسُّلًا ، اَوْ تَشَفُّعًا ، اَوِاسْتِغَاثَۃً ، اَوْ تَوَجُّھًا ، لِاَنَّ الْمَعْنٰی فِی جَمِیْعِ ذَلِکَ سَوَاءٌ یعنی اور جب میں نے  ( توسل و استغاثہ وغیرہ کی )  تمام اقسام اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے  ( مدد )  مانگنے کے تمام احوال لکھ دئیے اور معنی بھی ظاہر ہوگیا توتم پر کوئی حرج نہیں کہ اسے توسل ، سفارش ، استغاثہ اور توجّہ میں سے کوئی بھی نام دے دو کیونکہ ان سب کا ایک ہی مطلب ہے۔[4]

حضرت امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ نے بھی توسل ، استغاثہ ، اور شفاعت کے بارے میں یہ نقل فرمایا ہے کہ ان میں فرق نہیں ہے : وَلَا فَرقَ بينَ ذکرِ التَّوَسُّلِ وَالْاِسْتِغَاثَةِ وَالتَّشَفُّعِ وَالتَّوَجُّہِ بِہٖ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَوْ بِغَیْرِہٖ مِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَکَذَا الاَوْلِیَاء یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، انبیائے کرام اور اولیائے عظام سے توسل ، استغاثہ ، تشفع اور توجہ میں کوئی فرق نہیں۔[5]

اتنی صاف وضاحت کے بعد یہ کہنا سراسر الزام ہے کہ انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنے والے ، ان حضرات کو قادر اور مستقل جان کر مدد مانگتے ہیں۔ایسے الزام تراشوں کے بارے میں امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  ( یہ )  ایک ایسی سخت بات ہے جس کی شناعت  ( بُرائی )  پر اطلاع پاؤ تو مدتوں تمہیں توبہ کرنی پڑے ، اہلِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پر بدگمانی حرام ، اور ان کے کام کہ جس کے صحیح معنی بے تکلف درست ہوں خواہی نخواہی مَعَاذَاللہ معنی کفر کی طرف ڈھال  ( کر ) لے جانا قطعاً گناہ کبیرہ ہے۔[6]

کیا فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک نہیں؟

فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک ہے یا نہیں؟اس سوال کا جواب جاننے کے لئے امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کی عبارت پڑھئے جو کچھ آسان الفاظ میں پیشِ خدمت ہے : اللہ والوں سے مدد مانگنے کے مخالفین بیچارے کم علم لوگوں کو اکثر دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو زندہ ہیں فلاں عقیدہ یا معاملہ اِن سے شرک نہیں ، وہ مُردہ ہیں اُن سے شرک ہے یا یہ تو پاس بیٹھے ہیں اِن سے شرک نہیں ، وہ دور ہیں اُن سے شرک ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتیں کرنا سخت جہالت ہے ، جو شرک ہے وہ جس کے ساتھ کیا جائے شرک ہی ہوگا ، ایک کے لئے شرک نہیں تو کسی کے لئے بھی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیا اللہ پاک کے شریک مُردے نہیں ، زندے ہوسکتے ہیں! دور والےنہیں ہوسکتے ، پاس کے ہوسکتے ہیں! انبیاء نہیں ہوسکتے حکیم ہوسکتے ہیں! انسان نہیں ہوسکتے ، فرشتے ہوسکتے ہیں!

حاشالِلّٰہ! اللہ تبارک وتعالیٰ کاکوئی شریک نہیں ہوسکتا ، مثلاً جو بات ، نِدا ، خواہ کوئی شے جس اعتقاد کے ساتھ کسی پاس بیٹھے ہوئے زندہ آدمی سے شرک نہیں وہ اُسی اعتقاد سے کسی دور والے یا مُردے بلکہ اینٹ پتھر سے بھی شرک نہیں ہوسکتی ، اور جو ان میں سے کسی سے شرک ٹھہرے وہ قطعاً یقیناً تمام عالَم سے شرک ہوگی۔

 مزید فرماتے ہیں : مسلمان اس نکتے کو خوب محفوظ ملحوظ رکھیں ، جہاں ان چالاکوں ، عیاروں کو کوئی فرق کرتے دیکھیں کہ فلاں عمل یا فلاں اعتقاد فلاں کے ساتھ شرک ہے فلاں سے نہیں ، یقین جان لیجئے کہ نرے جھوٹے ہیں ، جب ایک جگہ شرک نہیں تو اس اعتقاد سے کسی جگہ شرک نہیں ہوسکتا۔[7]

 انتقال کے بعد بھی مدد مانگنا جائز ہے :

مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق ، شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی حنفی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : كُلُّ مَنْ يُّسْتَمَدُّ بِهٖ فِيْ حَيَاتِهٖ يُسْتَمَدُّ بِهٖ بَعْدَ وَفَاتِهٖ ، یعنی جس سے اس کی زندگی میں مدد مانگنا جائز ہے ، اس سے انتقال کے بعد بھی مدد مانگنا جائز ہے۔ مشائخِ عظام میں سے ایک ولی نے فرمایا : میں نے چار اولیاء کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی قبروں میں اُسی طرح تصرف کرتے ہیں جس طرح اپنی زندگی میں کرتے تھے یا اس سے بھی بڑھ کر۔  ( ان میں سے ایک )  حضرت معروف کرخی ، اور  ( دوسرے )  حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ہیں ، اور دو اور بزرگ شمار کئے۔  ( یاد رہےیہ صرف چار ہی اولیاء نہیں ہیں بلکہ جو کچھ ان بزرگ نے خود دیکھا ، پایا ، اُس کو بیان کر دیا۔ )  [8]

اللہ رب العزّت ہمیں اسلافِ کرام کے بتائے ہوئے عقائد و نظریات پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مکمل تحریر >>

Monday, 27 January 2025

شب معراج کےروزے اور شب بیداری کی فضیلیت اور شب بیداری کرنے کا طریقہ اور چیلنج کا جواب اور بدعت کی تفصیل اور اجتماع اور نوافل کی جماعت کی دلیل اور معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ میں شب معراج منائی جاتی تھی......!!*

*#شب معراج کےروزے اور شب بیداری کی فضیلیت اور شب بیداری کرنے کا طریقہ اور چیلنج کا جواب اور بدعت کی تفصیل اور اجتماع اور نوافل کی جماعت کی دلیل اور معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ میں شب معراج منائی جاتی تھی......!!*
*سوال....!!*
 جیسے ہی شب معراج قریب ہوتی ہے تو چند ویڈیوز اور تصاویر گردش کرنے لگ جاتی ہیں جس میں دیوبندیوں وہابیوں غیرمقلدوں کی طرف سے چیلنج و اعتراض کیا جاتا ہے کہ شب معراج 27 رجب کو نہیں ہے بلکہ کہتے ہیں شب معراج کی تاریخ ثابت نہیں ہے، جب تاریخ ثابت نہیں تو شب معراج منانا کہاں سے ثابت ہو گیا یہ بدعت ہے
اور
 یہی لوگ بلکہ کئ عوام کہتے ہیں کہ مکہ مدینہ میں شب معراج نہیں منائی جاتی تو ہم کیوں منائیں.....؟؟
شب معراج کی شب بیداری اور روزہ رکھنا اور نفل کی جماعت کرانا کہاں سے ثابت ہے؟ بدعت کسے کہتے ہیں...؟؟


*جواب و تحقیق......!!*

شب بیداری کیسے کریں اور مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا ان سب کی اصل پے دو حدیثں آخر میں لکھیں ہیں ۔پہلے شب معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ والوں کی شب 
بیداری کے حوالہ جات پڑھیے 

*#پہلی_بات*
 تاریخ میں اگرچہ اختلاف ہے مگر قوی راجح مشھور تاریخ شب معراج 27رجب ہے، اسی پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے مسلمانوں اور بالخصوص مکہ مدینہ والوں کا عمل تھا، اسی رات شب بیداری کرتے تھے...چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے

1=دیوبندی غیر مقلدین و اہلسنت و جماعت حنفی سب کی معتبر شخصیت شاہ  عبدالحق محدث دھلوی فرماتے ہیں:
والمشهور في السابعة والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل المدينة
 مشہور بات ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر اہل مدینہ عمل ہے کہ عبادات(شب بیداری )کرتے ہیں
(عبد الحق الدِّهْلوي ,لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح ,9/376)
۔
وہ لوگ غور سے پڑھیں جو کہتے ہیں کہ 27 رجب کو اہل مدینہ مکہ مدینہ کے لوگ شب معراج نہیں مناتے تھے۔۔۔شاہ صاحب نے صاف صاف لکھا ہے کہ اہل مدینہ 27 رجب کو شب معراج مناتے تھے۔۔۔ عمل کرتے تھے ۔۔۔عبادات کرتے تھے شب بیداری کرتے تھے
مگر جب سے آل سعود نے وہاں قبضہ کیا تب سے اس عمل اپنے مذہب و مسلک کے مطابق ترک کر دیا 

2=السابع والعشرين من رجب المعظم - وليلته كانت ليلة المعراج على المشهور من الأقوال
 اقوال میں سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے
(كتاب مرآة الجنان وعبرة اليقظان3/344)

"3=وقيل: كان ليلة السابع والعشرين من رجب" وعليه عمل الناس، قال بعضهم: وهو الأقوى، فإن المسألة إذا كان فيها خلاف للسلف ولم يقم دليل على الترجيح واقترن العمل بأحد القولين أو الاقوال، وتلقى بالقبول فإن ذلك مما يغلب على الظن كونه راجحا
 اور ایک قول یہ ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے کہ نیکیاں اور عبادات نوافل وغیرہ شب بیداری کرتے ہیں اور اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہی تاریخ قوی ترین تاریخ ہے… کیونکہ اسلاف میں جب کسی تاریخ میں اختلاف ہو اور اس میں اگر کسی ایک قول پر اسلاف کا عمل رہا ہوں اور انہوں نے اس قول کو قبول کر لیا ہو تو غالب گمان ہے کہ وہ تاریخ راجح ہے
(شرح الزرقاني على المواهب 2/71)
.
4=وكان الإسراء به صلّى الله عليه وسلّم والمعراج ليلة سبع وعشرين من رجب
 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی 27 رجب کو
(كتاب نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز1/138)
.
؛5= قَدِ اشْتَهَرَ بَيْنَ الْعَوَامِّ أَنَّ لَيْلَةَ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ هِيَ لَيْلَةُ الْمِعْرَاجِ النَّبَوِيِّ وَمَوْسِمُ الرَّجَبِيَّةِ مُتَعَارَفٌ فِي الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ يَأْتِي النَّاسُ فِي رَجَبٍ مِنْ بَلادٍ نَائِيَةٍ لِزِيَارَةِ الْقَبْرِ النَّبَوِيِّ فِي الْمَدِينَةِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي اللَّيْلَةِ الْمَذْكُورَةِ، وَهُوَ أَمْرٌ مُخْتَلَفٌ فِيهِ بَيْنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْمُؤَرِّخِينَ فَقِيلَ كَانَ ذَلِكَ فِي رَبِيعٍ الأَوَّلِ، وَقِيلَ فِي رَبِيعٍ الآخِرَةِ، وَقِيلَ فِي ذِي الْحَجَّةِ وَقِيلَ فِي شَوَّالٍ، وَقِيلَ فِي رَمَضَانَ، وَقِيلَ فِي رَجَبٍ فِي لَيْلَةِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ وَقَوَّاهُ بَعْضُهُمْ
 مشہور اور متعارف ہے کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ 27 رجب کو جمع ہوتے ہیں اور عبادات کرتے ہیں، زیارت  قبر نبوی کرتے ہیں اسی وجہ سے عوام میں مشہور ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب شب معراج ہے اگرچہ شب معراج کی تاریخ میں اختلاف ہے بعض نے فرمایا ربیع الاول میں تھی بعض نے فرمایا ربیع الآخر ہے، بعض نے فرمایا ذوالحجہ، بعض نے فرمایا شوال ہے بعض نے رمضان کا کہا ، بعض نے 27 رجب کو شب معراج قرار دیا ہے اور بعض علماء نے اس کو قوی ترین قرار دیا ہے
(كتاب الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص77)
۔
دیکھو غور سے دیکھو مکہ اور مدینہ والے 27 رجب کو شب معراج میں عبادات شب بیداری کرتے تھے
.
6=ليْلَة الْإِسْرَاء إِلَى بَيت الْمُقَدّس بِمَكَّة بعد النُّبُوَّة بِعشر سِنِين وَثَلَاثَة أشهر لَيْلَة سبع وَعشْرين من رَجَب
 شب معراج 27 رجب ہے
(كتاب الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع2/556)

.
7=السابع والعشرين من رجب ليلة الإسراء والمعراج به- صلى الله عليه وسلم
شب معراج 27 رجب ہے
(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية3/145)
.
8=السابع والعشرين من رجب، وكانت ليلة المعراج
 27 رجب اور یہ شب معراج ہے
(نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار1/406)
.
9=السَّابِع وَالْعِشْرين من رَجَب...قلت: قَالَ ابْن خلكان وَلَيْلَته لَيْلَة الْمِعْرَاج
 27 رجب.... میں مصنف کہتا ہوں کہ ابن خلکان نے کہا ہے کہ یہ شب معراج تھی
(كتاب تاريخ ابن الوردي2/95)
.
10=السابع والعشرين من رجب، وليلته كانت ليلة المعراج
 27 رجب اور یہ شب معراج تھی
(كتاب وفيات الأعيان7/179)

11=قاضی سلیمان منصور پوری کو اہل حدیث کے علماء میں شمار کیا جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ میں اسے معتبر عالم کہا گیا ہے…انکا نظریہ تھا کہ:
وقال الزرقاني: إن الإمام ابن عبد البر والإمام ابن قتيبة الدينوري والإمام النووي (تبعا للرافعي) حددوا شهر رجب للمعراج.وقال الحافظ عبد الغني المقدسي (ت ٦٠٠ هـ) أن الراجح هو السابع والعشرين من رجب، وذكر أن الاتفاق عملا كان على ذلك دائما (٣).وخلاصة الأقوال السابقة أن واقع المعراج كان في السابع والعشرين من رجب عام ٥٢ من ولادة النبي

 علامہ زرقانی علامہ ابن عبدالبر امام ابن قتیبہ امام نووی امام رافعی کے مطابق معراج رجب کے مہینے میں تھی اور امام عبدالغنی مقدسی نے فرمایا کہ راجح یہ ہے کہ 27 رجب میں شب معراج ہے اور مزید فرمایا کہ اس پر ہمیشہ سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے کہ لوگ عبادات کرتے ہیں، تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج کا واقعہ 27 رجب میں ہوا تھا
(اہلحدیث غیر مقلدین وغیرہ کی معتبر کتاب رحمة للعالمين ص705)
.
12=ليلة السابع والعشرين من رجب..وهي ليلة المعراج الذي شرف الله به هذه الأمة
 رجب کی ستائیسویں شب.... جو معراج کی رات ہے کہ اللہ نے اس امت کو یہ عظیم الشان رات عطا فرمائی
(تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين ص497)
.
13=وكان يأتي المدينة ببركة النبي صلى الله عليه وسلم نسيم بارد. وكان انطفاؤها في السابع والعشرين من شهر رجب ليلة الإسراء والمعراج
 ایک طرف یہ بہت بڑی آگ تھی لیکن مدینے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور یہ آگ 27 رجب میں بجھ گئی ، 27 رجب کہ جو شب معراج ہے
(إظهار الحق4/1017)
.
14=وقد جرى عملُ المسلمين على متابعة ما اختاره الحافظ عبد الغني المقدسي، فجعلوا ليلة سبع وعشرين من رجب ليلة ذكرى الإسراء، ولعل الله قد وفقهم في هذا العمل فيكون ترجيحًا لذلك الاختيار
 امام حافظ عبدالغنی مقدسی نے جو اختیار فرمایا کہ 27 رجب اور شب معراج ہے تو مسلمانوں کا عمل بھی اس پر جاری ہوا... شاید کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو اس عمل کی توفیق عطاء فرمائی تو مسلمانوں کا یہ عمل اس بات کی ترجیح ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے
(جمهرة مقالات ورسائل الشيخ الإمام محمد الطاهر ابن عاشور1/481)
.
15=وجزم الحافظ ابن حجر بأنه ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل الأمصار
 امام ابن حجر نے یقین کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے اور اسی پر لوگوں کا ، مسلمانوں کا عمل ہے(کہ 27 رجب کو عبادات کرکے شب بیداری کرکے یہ رات مناتے ہیں)
(كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي1/654)
۔
دیکھیے صاف لکھا ہے کہ صرف مکہ مدینہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں شب معراج 27 رجب کو منائی جاتی تھی،عبادات کی جاتی تھی شب بیداری کی جاتی تھی اور اسی پر اج بھی عمل ہے الحمدللہ تعالی
.
16=أنه كان في سبعة وعشرين من شهر رجب على وفق ما هم عليه في الحرمين الشريفين من العمل
 ایک قول کے مطابق 27 رجب شب معراج ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حرمین شریفین مکہ مدینہ کے لوگ اسی رات شب بیداری کرتے ہیں نوافل پڑھتے ہیں عبادات کرتے ہیں
(شرح الشفا للقاری ,1/394)
.
*#دوسری_بات*
شب قدر کی تاریخ کنفرم نہیں لیکن قوی امکان کے تحت 27 رمضان کو شب بیداری و عبادات کرنا سب کے ہاں اچھا و بہتر ہے...اسی طرح شب معراج کی تاریخ متعین نہ بھی ہو تو راجح قوی بلکہ ممکنہ تاریخ پر شب بیداری عبادات کرنا جائز و ثواب کہلائے گا اور قوی راجح تاریخ شب معراج کی ستائیس رجب ہے جیسے کہ اوپر بیان ہوا
.
وہابیوں و غیر مقلدوں کا معتبر عالم ابن عثیمین لکھتا ہے:
كل هذا ممكن أن تكون فيه ليلة القدر، والإنسان مأمور بأن يحرص فيها على القيام، سواء مع الجماعة إن كان في بلد تقام فيه الجماعة، فهو مع الجماعة أفضل
 ممکن ہے کہ 27 رمضان کو شب قدر ہو تو انسان کو یہ حکم ہے کہ اس رات قیام کرے عبادات کرے نوافل پڑھے اکیلے پڑھے یا جماعت کے ساتھ... مل کر عبادات کریں تو یہ افضل ہے
(كتاب مجموع فتاوى ورسائل العثيمين20/66)
.
اس رات کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے، رمضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہیے، اورتلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگ کر انفرادی طور پر نماز، تلاوت اوردعا وذکر کا اہتمام کرنا چاہیے، رمضان کی ستائیسویں شب کو اس کا امکان زیادہ ہے
(دار الافتاء دیوبند جواب نمبر: 16814فتوی(م):1617)
.
یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کوی ایک ہے بلکہ اس بات کا بھی ظن حاصل ہوتا ہے کہ وہ طاق رات ستائیسویں رمضان کی ہے....اس رات میں بھی دنیا کی رغبتوں سے بے نیاز ہوکر ،اذکار و اعمال میں مشغول رہے کثرت سے نفل نمازیں پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے۔ دل کو حسد، بغض، کینہ، عداوت، غرور، تکبر کی آلائشوں سے پاک رکھے
(دیوبند کی کتاب...رمضان المبارک کے فضائل و مسائل جلد دوم ص187..189)

 ان حوالہ جات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ غالب گمان کے طور پر شب قدر کی تاریخ مقرر کی گئ اور انفرادی و اجتماعی عبادت کا بھی حکم دیا گیا.... اسی طرح شب معراج میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ 27 رجب کو ہے تو اس رات میں بھی عبادت اجتماعی یا انفرادی طور پر کرنی چاہیے
.
*#اگر کوئی کہے کہ شب قدر میں عبادات کا حکم حدیث پاک میں ہے لیکن شب معراج میں عبادت کا حکم نہیں....تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہر شب نفلی عبادات و درود ذکر اذکار کرنے کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور ضعیف حدیث میں شب معراج میں بالخصوص شب بیداری عبادات کی ترغیب ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث مقبول و معمول ہے تو لہذا ستائیس رجب شب معراج  کو مطالعہ علم و وعظ و عبادات  صدقہ خیرات شب بیداری  کرنی چاہیے*

*شب معراج کے متعلق  دو احادیث مبارکہ*
الحدیث:
فى رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وهو لثلاث بقين من رجب
ترجمہ:
رجب میں ایک ایسا دن ہے اور ایک ایسی رات ہے کہ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام اللیل(عبادات،شب بیداری) کی تو گویا اس نے زمانے میں سے سو سال روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا،اور وہ ستائیس رجب ہے.
(شعب الایمان حدیث3811)
(تبیین العجب ص43)
(كنز العمال حدیث35169)
(فضل رجب لابن عساكر ص315)
(جامع الأحاديث حدیث14813)

امام ابن حجر نے اسکی سند پر تفصیلی کلام کیا…موضوع متھم کذاب وغیرہ کا حکم نہ لگایا بلکہ نکارت ضعیف کا حکم لگایا
(تبیین العجب ص43)
.
امام ابن عراق نے امام ابن حجر کی جرح کو برقرار رکھتے ہوئے ضعیف قرار دیا
(تنزيه الشريعة المرفوعة2/161)

امام سیوطی نے ضعیف قرار دیا
(الدر المنثور في التفسير بالمأثور4/186)

امام ابن عساکر نے غریب ضعیف قرار دیا
(فضل رجب لابن عساكر ص315)
.
علامہ لکھنوی نے کذاب یا متھم بالکذب کی جرح نہ کی، ضعیف نکارت کی جرح کو برقرار رکھا 
(الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص60)
.
امام بیھقی نے ضعیف قرار دیا
(شعب الإيمان5/345)

الحدیث:
بعثت نبياً في السابع والعشرين من رجب فمن صام ذلك اليوم كان له كفارة ستين شهراً
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 27 رجب کو میں نبی مبعوث ہوا تو جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا اس کے لیے ساٹھ مہینوں کا کفارہ ہوگا
(تبین العجب ص44..تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

امام ابن حجر نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تبین العجب ص44)
.
امام ابن عراق نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

فضائل میں حدیث ضعیف پے عمل جائز و ثواب ہے
اصول:
يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل
فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)
.
قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل  والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً
علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو 
(الأذكار للنووي ص36)
.
*شب_بیدری کیسےکریِں...........!!*
روزانہ ورنہ کم از کم بابرکت راتوں جیسے شب قدر شب معراج شب برات وغیرہ میں شب بیداری کرنی چاہیے...گھر میں بھی یہ عبادات و شب بیداری کرسکتے ہیں اور بہتر ہے کہ مسجد میں اجتماعی شب بیداری میں شامل ہوں تاکہ بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملے اور سستی بھی نہ ہو....کچھ نوافل ذکر و اذکار درج ذیل ہیں جو ہوسکے تو روزانہ ورنہ کم سے کم بابرکت راتوں میں تو ضرور ادا کرنے چاہیے.....*#مگر یاد رہے کہ شب بیداری ، نفلی عبادات کو فرض واجب مت سمجھیے، مروجہ طریقے سے سنت مت سمجھیے بلکہ جائز و ثواب سمجھیے کہ جسکی اصل احادیث سے ثابت ہے*
✍️علامہ عنایت اللہ حصیر
مکمل تحریر >>